جبل خان کی سیاسی زندگی میں سید یحییٰ منور کا بھی کردار ہے ۔ وہ ان کے سیاسی امور میں معاونت کرتے تھے کچھ عرصہ قبل ان کا بھی انتقال ہو گیا ہے۔ میر ظفر اللہ خان دبنگ سیاست دان تھے۔ ایک بار ایوان صدر میں منعقد ہونے والے اجلاس میں وفاقی وزیر خزانہ شوکت عزیز نے جنرل پرویز مشرف کی ملک و قوم کے لئے ’’ خدمات‘‘ کرنسی نوٹ پر ان کی تصویر چھاپنے کی بے ہودہ تجویز پیش کر دی خوشامدانہ ماحول میں اس وقت کے گورنر سٹیٹ بنک اور موجودہ وزیر اعظم کے مشیر ڈاکٹر عشرت حسین نے نئے کرنسی نوٹ پر جنرل پرویز مشرف کی تصویر چھاپنے بارے میں شرکاء اجلاس سے باری باری رائے لی‘ سب ہی اس بات کے حق میں کر رہے تھے لیکن جب جنرل پرویز مشرف سے قبل میر ظفر اللہ خان جمالی کی باری آئی تو مادر ملت فاطمہ جناح کے اس گارڈ نے قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ جنرل پرویز مشرف کی تصویر چھاپنے کی مخالفت کر کے سار ا کھیل ہی ختم کر دیا ایک بار جمالی صاحب نے اس وقت کے ایک صوبے کے گورنرکو بلا کر کہا کہ ایجنسیوں نے تمہارے بارے میں رپورٹ دی ہے کہ تم لندن پاؤنڈز سے بھرا بیگ ساتھ لے کر جاتے ہو اگر آئندہ ایسا ہوا تو ایف آئی اے تمہیں ائیر پورٹ پر ہی پکٹرلے گی ایسے متعدد واقعات ہیں میر ظفر اللہ خان جمالی کے اقتدار کو مختصر بنانے کا باعث بنے وہ ایک سچے عاشق رسولﷺ اور زندگی میں جب کبھی اپنے آپ کو مشکل میں محسوس کرتے حرم پاک اور روضہ رسولﷺ پر حاضری دیتے۔ جب پچھلی قومی اسمبلی میں ختم نبوت کے حوالے سے انتخابی قوانین میں ترمیم کر لی گئی تو یہ بلوچ سردار اسمبلی کی رکنیت سے استعفاٰ دے کر چلا گیا اور ایسی اسمبلی میں بیٹھنا گوارہ نہ کیا جو ختم نبوت کے قانون میں ترمیم کو نہ روک سکی ۔میر ظفر اللہ جمالی اے ایف آئی سی ہسپتال راولپنڈی میں زیرعلا ج تھے ۔ انکے چاروں صاحبزادے فرید جمالی ، عمر جمالی ،شاہنواز جمالی اور میجر جاوید جمالی اور صاحبزادی عذرا جمالی آخری وقت ہسپتال میں ان کے پاس موجود تھے۔
سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی یکم جنوری 1944 کو پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ضلع نصیرآبادکے علاقے روجھان کے سیاسی خانوادے سے ہے ۔میر ظفر اللہ جمالی نے سیاسی کیریئرکا آغاز 1970 میں کیا اور پہلی بار 1970 کے الیکشن میں حصہ لیا۔میر ظفراللہ خان جمالی ملک کے 15 ویں وزیراعظم رہے ہیں، وہ 23 نومبر 2002 سے 26 جون 2004 تک وزیراعظم رہے۔انہوں نے ابتدائی تعلیم لارنس کالج مری سے حاصل کی، بعد میں انہوں نے ایچیسن کالج لاہور سے اے لیول کیا، گریجویشن گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا، بعد ازاں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے سیاسیات میں ماسٹرزکی ڈگری حاصل کی۔میر ظفر اللہ جمالی نے اپنے سیاسی کیرئر کا آغاز 1970 میں کیا تھا، 1977 کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر پہلی بار بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور صوبائی وزیر بھی رہے۔جنرل ضیا الحق کے دور میں انہیں وفاقی کابینہ میں وزیر مملکت مقرر کیا گیا، اسکے بعد 1985 کے عام انتخابات میں دوبارہ اپنے حلقے سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور اس وقت کے وزیر اعظم کی وفاقی کابینہ میں شامل رہے، انہیں وفاقی وزیر پانی و بجلی کی وزرات ملی۔1988 میں ظفر اللہ خان جمالی نگران وزیراعلی بلوچستان رہے، 1988 کے عام انتخابات میں دوبارہ رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور وزیر اعلی بلوچستان کے منصب پر فائز رہے۔
1993 کے عام انتخابات میں وہ مسلم لیگ کے ٹکٹ پر دوبارہ رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوگئے، وہ 1994 اور 1997 میں سینیٹ کے رکن بھی رہے اور 1997 میں دوبارہ نگراں وزیراعلی بلوچستان رہے۔میر ظفراللہ خان جمالی وزیر اعظم پاکستان کے منصب پر فائز رہے، وہ 23 نومبر 2002کو پاکستان کے 15ویں وزیراعظم منتخب ہوئے اور 26 جون 2004 کو وزرات عظمیٰ کے منصب سے مستعفی ہوگئے تھے۔ انہیں کھیلوں سے بھی بہت دلچسپی تھی، وہ زمانہ طالب علمی میں خود بھی ہاکی کھیلتے رہے، وہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر بھی رہے۔ میر ظفر اللہ جمالی کے دادا جعفر جمالی نے ایوب خان دور میں فاطمہ جناح کا ساتھ دیا اور ان کیلئے الیکشن کی مہم بھی چلائی ۔ انکے آبائو اجداد قائد اعظم کے قریبی ساتھی تھے ۔ قائد اعظم جب بھی بلوچستان جاتے تو وہ میر ظفر اللہ جمالی کے دادا جعفر جمالی کے ہاں بطور مہمان قیام پذیر ہوتے ۔ میر ظفر اللہ جمالی وزیر پانی و بجلی بھی رہے اور وہ ہمیشہ کالا باغ ڈیم کے حق میں دلا ئل دیتے تھے ۔ میر ظفر اللہ جمالی ضیاء الحق اور جنجوعہ کی حکومت میں بھی بطور وزیر رہے ۔ جب کہ 2002 میں وہ ق لیگ کی طرف سے ملک کے وزیر اعظم بنے ۔
میر ظفر اللہ خان جمالی کی میاں نواز شریف سے کبھی نہیں بنی لیکن اسکے باوجود وہ ہمیشہ ان کے خیر خواہ رہے جب میں جلاوطنی کے ایام میں میاں نواز شریف سے جدہ میں سرور پیلس میں ملاقات کر کے آیا تو وہ مجھے خاص طور بلا کر میاں نواز شریف بارے میں باتیں کرتے رہے ۔میر ظفر اللہ خان جمالی کی وفات سے ہم پاکستان پر مر مٹنے والے ایک بلوچ سردار سے محروم ہو گئے ہیں۔ بلوچستان کے پہاڑوں سے پاکستان کیلئے اٹھنے والی بلند آواز ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاموش ہو گئی ہے ۔ (ختم شد)