اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ آف پاکستان کا کہنا ہے کہ عدالتی فیصلے کیخلاف قانون سازی نہیں ہوسکتی۔ عدالتی فیصلوں کیخلاف قانون سازی ہونے لگے تو عدلیہ کی آزادی کہاں رہے گی۔ کیس میں عدالت نے آرڈیننس اور ایکٹ کے ذریعے بحال ہونے والے ملازمین کی فہرست طلب کرلی۔ سپریم کورٹ میں 16 ہزار سے زائد ملازمین کی برطرفی کے کیس کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔ سوئی گیس اور سٹیٹ لائف کے برطرف ملازمین کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا پیپلز پارٹی حکومت ختم ہوتے ہی بھرتی ہونے والے ملازمین نکالے جاتے ہیں۔ کیا ہمیشہ پیپلزپارٹی کے بھرتی ملازمین نکالا جانا بھی اتفاق ہے؟۔ پیپلزپارٹی نے آمریت کے برطرف شدہ ججز کو بھی بحال کیا تھا۔ پیپلزپارٹی کا انتخابی وعدہ تھا کہ ملازمین کو بحال کرینگے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا خلاف قانون برطرفیاں 1947 سے ہو رہی ہونگی، صرف ان چند ملازمین کو ہی کیوں بحال کیا گیا ہے؟۔ جس پر وکیل لطیف کھوسہ نے کہا برطرفی کے بعد ملازمین نے عدالتوں سے رجوع کیا تھا، عدالتوں نے کئی ملازمین کو بحال کیا کئی کی برطرفی برقرار رکھی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا نظرثانی دائر کرنے والے ملازمین عارضی طور پر بھرتی تھے، پارلیمنٹ صرف ہمدردی کی بنیاد ہر فیصلے نہیں کر سکتی۔ وکیل لطیف کھوسہ نے کہا 2021 سے پہلے کسی عدالت نے ملازمین کیخلاف فیصلہ نہیں دیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا بنیادی سوال تو یہی ہے برطرف ملازمین کا معاملہ عدالت کیوں نہیں لیکر آئے۔ سردار لطیف کھوسہ نے کہا ہم معزول ججز کا معاملہ بھی عدالت نہیں لائے تھے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا نظرثانی کیس بنتا ہی ان کا ہے جو ایکٹ کالعدم ہونے پر فارغ ہوئے، دوران سماعت اٹارنی جنرل پاکستان بھی روسٹرم پر آئے اور موقف اپنایا کہ مناسب ہوگا آرڈیننس کے تحت بحال ہونے والوں کا کیس ہائیکورٹ میں ہی چلے، سماعت آج تک ملتوی کر دی گئی۔