ترکی: سیکولرازم سے اسلام کی طرف پیش رفت اور چیلنجز

Dec 09, 2021

 90ء کی دہائی کے اوائل میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے جن میں استنبول اور انقرہ سمیت ملک کی تمام اہم بلدیات میں رفاہ پارٹی نے بھرپور کامیابی حاصل کی اور آئندہ چند سالوں میں اپنی شاندار کارکردگی کے نتیجے میں پوری قوم میں مقبولیت حاصل کی ، مئی 1990ء میں ہمارے دورے کے موقع پر استنبول جیسا شہر پانی اور بجلی کی ناکافی سہولتوں کا شکار تھا، صفائی ستھرائی کا فقدان تھا، سرکاری پلانٹس پر تیار شدہ روٹی دیگر اشیاء کے ساتھ انتہائی مہنگی تھی، بلدیاتی اداروں میں کرپشن کا کلچر عام تھا لیکن چار سالہ مدت میں رفاہ کے تحت بلدیاتی اداروں نے عموماََ اور طیب اردگان کی قیادت میں استنبول کی بلدیہ نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام بنیادی مسائل حل کیے اور استنبول کو تمام سہولتوں سے آراستہ، جدید شہر میں تبدیل کر دیا، دیگر شعبوں کے علاوہ رس ورسائل کے میدان میںبہترین سفری سہولتیں فراہم کرنے کیلئے زیر زمین ریلوے نظام اور یورپی معیار کا میٹرو بس سروس سسٹم مکمل کیا ، جابجا اشرافیہ کیلئے قائم کلبوں کو عوام کیلئے کھول دیا ، روٹی سستی کر دی ، صفائی کا مثالی نظام قائم کیا جس کے نتیجے میںسیاحت کو فروغ ملا اور استنبول عالمی سیاحت کا مرکز بن گیایوںبلدیہ اور مجموعی طور پر ریاست کی آمدن میں بے پناہ اضافہ ہوا اور طیب اردگان خصوصی طور پر ڈاکٹر اربکان کے سیاسی جانشین کی حیثیت سے سامنے آئے، اس عرصے میں بھی نوابزادہ نصراللہ خان صاحب چیئرمین کشمیر کمیٹی کی سربراہی میں راقم کو ایک وفد کے ہمراہ ترکی کا دورہ کرنے کا موقع ملا، استنبول میں طیب اردگان نے ہماری میزبانی کاحق ادا کیا اس بلدیاتی کارکردگی کے نتیجے میں 1995ء کے قومی انتخابات میں رفاہ پارٹی نے سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی کا اعزاز حاصل کیا ۔
 پروفیسر ڈاکٹر نجم الدین اربکان کی قیادت میں رفاہ پارٹی نے اکثریت تو حاصل کرلی لیکن حکومت سازی کیلئے سابق وزیر اعظم تانسوچلر کی پارٹی سے مفاہمت کرنا پڑی یوں طے پایا کہ اڑھائی اڑھائی سال دونوں وزارت عظمی پر فائز رہیں گے، ڈاکٹر اربکان نے اسٹبلشمنٹ، عدلیہ، ذرائع ابلاغ اور عالمی سطح پر اسرائیل نواز لابی کے عدم تعاون کے باوجود اہم اقدامات کیے کرپشن کا خاتمہ اور شفافیت کا اہتمام کیا ، عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کے حوالے سے متحرک کردار ادا کیا بوسنیا کی تحریک آزادی میں بھرپور کردار ادا کرتے ہوئے مہاجرین کی آبادکاری اور بوسنیا کی حکومت کے استحکام کیلئے کاوشیں کیں، مسلم دنیا میں سیاسی اور معاشی استحکام کیلئے  D-8 بلاک قائم کیا جس میں پاکستان سمیت مسلم دنیا کے آبادی اور وسائل کے اعتبار سے 8 بڑے ممالک کو شامل کیا، اربکان کی تجویز تھی کہ یورپی مشترکہ منڈی اور کرنسی کی طرح ان ممالک کی بھی ایک مشترکہ منڈی اور کرنسی قائم ہو اور بتدریج تمام مسلم ممالک اس بلاک کا حصہ بنیں، نیز عالمی سطح پر یہ مسلم بلاک چین اور روس کے تعاون سے مغربی سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میںایک نیا بلاک معرض وجود میں آئے جو مغربی استعماری سیاسی اور معاشی ہتھکنڈوں کا توڑ کرسکے،اس ہدف کے حصول کیلئے یہ نیابلاک امریکی سرپرستی میں قائم مغربی استعماری نظام کا سیاسی اور معاشی سطح پر مقابلہ کر سکے۔
 اربکان کی یہ بھی تجویز تھی ڈالر کے توڑ کیلئے اس نئے بلاک کی اپنی کرنسی اور بتدریج مشترکہ منڈی بھی قائم ہو۔ اگر انہیں موقع ملتا تو وہ دنیا میں مغربی سرمایہ دارانہ اور استحصالی نظام کی چولیں ہلا دیتے، مختصرمدت کے اقدامات سے رفاہ کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوالیکن عالمی ساہوکار اس انقلابی لیڈر کو کیسے برداشت کر سکتے تھے چنانچہ ترکی فوج ایک مرتبہ پھر متحرک ہوئی اس نے اپنے آمرانہ اقدام کرتے ہوئے اربکان حکومت پر شب خون مارا ان کی پارٹی پر پابندی عائد کر دی تمام ممبران پارلیمنٹ اردگان سمیت گرفتار کر لیے گئے اور من پسندعدلیہ سے توثیق بھی حاصل کر لی، دوبارہ سیاسی سرگرمیاں بحال ہونے پر استاد اربکان کے دست راست اور سابق وزیر رجائے کوتان کی قیادت میں سعادت پارٹی قائم کی گئی جبکہ اردگان کی سرپرستی میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ  پارٹی قائم ہوئی جسے اے کے پارٹی کہاجاتاہے جس میں عبداللہ گل سمیت اکثریتی بلدیاتی اداروں کے ذریعے ابھرنے والے لیڈر شامل ہوئے، سعادت پارٹی نے نئی پارٹی کے قیام پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور اسے استاد اربکان اور انکے نظریات سے بے وفائی قرار دیا جبکہ نئی پارٹی نے بحثوں میں الجھے بغیر اپنا کام جاری رکھا اور 2002 ء کے منعقدہ انتخابات میںسماجی ترقی اور عدل انصاف کی فراہمی کے ماٹوکے ساتھ حصہ لیتے ہوئے رفاہ پارٹی سے بھی زیادہ بھاری اکثریت حاصل کرتے ہوئے سب سیاسی پنڈتوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا، حالانکہ ان انتخابات میں اردگان ایک عدالتی سزا کے نتیجے میں قید وبندکی وجہ سے نہ خود حصہ لے سکے نہ بھرپور مہم میں شامل ہوئے، نئی حکومت عبداللہ گل کی قیادت میں قائم ہوئی جس نے پارلیمنٹ کے زریعے متنازعہ قانون منسوخ کرتے ہوئے ضمنی انتخابات میں اردگان کیلئے پارلیمنٹ کا دروازہ کھولا ، یوں 2003ء میں عبداللہ گل مستعفی ہوئے اور طیب اردگان وزیراعظم منتخب ہوگئے، بعد میںفوج اور عدلیہ کی سازشوں کو ناکام بناتے ہوئے عبداللہ گل صدر منتخب ہوگئے یوں ایک طویل عرصے بعد صدارت، وزارت عظمیٰ اور پارلیمنٹ میں واضح اکثریت کے ساتھ اے کے پارٹی کو کام کرنے کا موقع ملا اردگان کیلئے بے پناہ چیلنجز تھے جن میں سب سے برا چیلنج اسٹبلشمنٹ اور آئینی عدالت کا گٹھ جوڑ جس کے نتیجے میں اربکان سمیت کئی حکومتیں فارغ ہوتی رہیں، معاشی عدم استحکام، بے روزگاری، مہنگائی، کاروباری حلقوں کے مسائل، مافیاز جو عالمی استعمار اور صہیونی ایجنسیز کا ہمیشہ آلہ کار بنتے رہے، انکی نوزائیدہ حکومت کیلئے بھی لٹکتی تلوار تھے۔
 اردگان حکومت نے ایک طرف کرپشن کا خاتمہ کرتے ہوئے معاشی وسائل میں اضافے کا اہتمام کیا، بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام شروع ہوئے بلدیات میں بڑی کامیابی حاصل کرنے کے بعد ان اداروں کے ذریعے نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی کا اہتمام کیا اور گلی محلے میں تعمیر و ترقی کا انقلاب پرپا کیا، اپنی شاندار کارکردگی بڑھانے کے ساتھ ساتھ فوج کے آئینی اختیارات کو ختم کیا، آئینی عدالت جو اسٹبلشمنٹ کا ایک اہم مورچہ تھا کو بتدریج غیر موثر بناتے ہوئے تمام اختیارات پارلیمان کے سپرد کیے، یوں ترکی ایک دوغلی جمہوریت کے بجائے حقیقی جمہوریت کی پٹری پر رواں ہوا، یہ اردگان کی سب سے بڑی اور اہم کامیابی تھی علاوہ ازیں ملکی دولت لوٹنے والے مافیاز کو لگام ڈالی اور مختصر مدت میں ترکی جو آئی ایم ایف اور ولڈ بینک کے قرضوں میں جکڑا ہوا تھا سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوا، ترکی کی کرنسی لیرا با لکل بے وقعت ہو چکی تھی اس کا وقار بحال ہوا ، تعلیم صحت سماجی انصاف غرضیکہ تمام شعبہ زندگی میں انقلابی تبدیلیوں کا اہتمام کیا جس کے نتیجے میں درجنوں نئے ایئرپورٹس قائم ہوئے،  دسیوں ہزار کلومیٹر پختہ سڑکیں بچھائی گئی ، تمام اہم شہروں کو ریلوے کے نظام سے مربوط کیا گیا نئی صنعتی پالیسی تشکیل دیتے ہوئے صنعتوں کا جال بچھایا گیا سب سے بڑھ کر ترکوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے اسلامی تہذیب اور روایات کا احیاء کیا گیا۔
 ایک وقت وہ تھا کہ رفاہ پارٹی کی خاتون منتخب ممبر پارلمینٹ کو محض اسکارف پہننے کے جرم میں پارلیمنٹ ممبر شپ سے محروم کر دیا گیا، اور آج کی پارلیمان میں درجنوں ممبران پارلیمنٹ حجاب اور سکارف کے ساتھ اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ تعلیمی اداروں ، یونیورسٹیز اور سرکار ی دفاتر میں حجاب پر پابندی تھی بلکہ وہ ناروا پابندیاں بھی تھیں جو مغربی ممالک میں بھی نا پسندیدہ سمجھی جاتی ہیں۔ اپنی شاندار کارکردگی کے نتیجے میںاے کے پارٹی انتخابات میںمسلسل کامیابی حاصل کرتی رہی۔ (جاری )

مزیدخبریں