امریکہ نے اپنے مقاصد حاصل کرلئے اور امریکی انخلاء کے بعداشرف غنی کی افغان حکومت یکدم دنوں میں زمین بوس ہوگئی اور ریاست کا نظام درہم برہم ہوگیا جس کے بعد طالبان نے بغیرکسی مزاحمت کے پورے ملک پر کنٹرول حاصل کرلیا۔ اپنے مقاصد کے حصول کے بعد امریکہ نے طالبان حکومت کیخلاف محاذ بنالیا اور دنیا کو اسے قبول کرنے سے روک دیا۔ مفاد پرستی اور ابن الوقتی کی اس سے بڑی مثال شاید ہی کوئی دیکھنے کو ملے۔ اس دفعہ بھی امریکی انخلاء کے بعد کی صورتحال سے نمٹنے کیلئے کوئی باقاعدہ منصوبہ بندی نہیں کی گئی جیسا کہ80ء کی دہائی کے اواخرمیں سوویت یونین کے انخلاء کے بعدکیاگیا تھا جس کا نتیجہ تباہی وبربادی کی صورت میں نکلا، ریاستوں کے ذاتی مفاد کی خاطرکسی ملک کے عوام کی معاشی ناکہ بندی انسانیت کے قتل کے مترادف ہے جس کی مثالیں ہم عراق، شام، فلسطین اور ایران میں دیکھ چکے ہیں اوربدقسمتی سے اب یہی افغانستان میں دہرایا جارہا ہے۔ ایک طرف افغان عوام ایک بدترین صورتحال سے دوچار ہیں تو دوسری طرف عالمی اور علاقائی طاقتیں اپنے مفادات کی دوڑ میں مصروف ہیں، حال ہی میں ہندوستان نے جس کا افغان مسئلے سے براہ راست کوئی تعلق نہیں علاقائی ممالک کی ایک کانفرنس بلائی جس میں روس، ایران اور وسطیٰ ایشیاء کے ممالک سمیت آٹھ ممالک نے شرکت کی جبکہ افغانستان کے سب سے بڑے ہمسائے پاکستان کو مدعو ہی نہیںکیاگیا اس کانفرنس میں افغان عوام کو درپیش ایک بڑے انسانی المیے پر بحث کرنے کی بجائے اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کا ذکرکیاگیا۔ اسکے بعد پاکستان نے جوابی طور پر امریکہ، چین، روس اور طالبان کی حکومت پر مشتمل ٹرائیکا پلس کا اجلاس منعقدکیاتاکہ افغان مسئلے کا حل تلاش کیا جاسکے۔ بدقسمتی سے ہندوستان سمیت خطے کے بیشترممالک کو افغان عوام کی مشکلات سے کوئی سروکار نہیں انکے مفاد میں یہی ہے کہ افغانستان غیریقینی اور عدم استحکام کا شکار رہے، اور طالبان کی حکومت کو تسلیم نہ کیاجائے تاکہ ان سب کو اپنے اپنے مفاد کیمطابق گروہوں کو سپورٹ کرنے کا موقع ملتارہے، اور انکے پراسیسز سرگرم عمل رہیں۔ گزشتہ چار ماہ سے طالبان کے کنٹرول حاصل کرنے کے بعد پاکستان بین الاقوامی برادری کو مسلسل یاد کراتا چلا آرہا ہے کہ طالبان کی حکومت ایک حقیقت ہے لہٰذا اسے دیوار سے لگانے کی بجائے تسلیم کیاجائے تاکہ انہیں Engageکیاجاسکے۔ انہیں Isolate کرنے سے افغان مسئلہ مزید گھمبیر ہوگا جس کا نقصان افغان کے چھ کروڑ عوام کو ہوگا جو پہلے ہی دہائیوں کی خانہ جنگی کی بدولت تباہی کے دہانے پرہیں۔ طالبان کو Engage کرکے دنیا انہیں ان باتوں اور مطالبات کوماننے پرمجبورکرسکتی ہے جس کا تعلق انسانی حقوق اور خواتین کے بنیادی حقوق کے تحفظ سے ہے۔ طالبان نے مجموعی طورپر اب تک تحمل کا مظاہرہ کیا ہے اور ماضی کے رویے کے برعکس وہ کوئی ایسا عمل نہیں کیاجس کی بنیاد پر انہیں کام کرنے کا ایک منصفانہ موقع نہ دیاجائے اگر امریکہ حالت جنگ میں مصروف طالبان سے اپنے مفادات کے حصول کی خاطر مذاکرات کرسکتا ہے تو خطہ اور افغان عوام کے مجموعی مفاد میں برسراقتدار طالبان حکومت کو کام کرنے کا موقع دینے کیلئے کیوں تیار نہیں؟ آج پاک افغان سرحدکی صورتحال انتہائی خطرناک ہے جہاں ایک ظہورپذیر ہوتا ہوا ایک انسانی المیہ دیکھا سکتا ہے۔جوافغان دسترس رکھتے تھے وہ تو ملک سے نکل چلے اور مزید بھی چلے جائینگے مگر ایک عام افغانی کیا کرے، فی الحال تو سرحد بند ہونے کی وجہ سے لوگ سرحدسے اس پار نہیں آپارہے مگرجب کھانے کوکچھ نہیںملے گا توپھر لوگ کسی چیز کی پرواہ نہیں کرینگے، ان وجوہات کی بنیاد پر اس خدشے کا اظہار کیا جارہا ہے کہ اگر دنیا نے ہوش کے ناخن نہ لئے اور بردباری، دانشمندی کا مظاہرہ نہ کیا تو اس دفعہ مہاجرین کا ایک سیلاب امڈآئیگا جسکی منزل پاکستان اور کسی حد تک ایران ہوگی۔ اس ساری صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر ہمیشہ کی طرح پاکستان ہی ہوگا۔ اسی وجہ سے پاکستان مسلسل دنیا کو اس خطرے اور اسکے اثرات سے باورکرانے کی کوشش کررہاہے، ایک اور المیہ یہ بھی ہے کہ دہشتگردی کی حمایت کرنے جیسے الزامات کا سامنا کرنیوالے افغان طالبان اب خود دہشت گرد تنظیم کے حملوں کاشکار ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکہ بالخصوص اور مغربی دنیا بالعموم ہوش کے ناخن لے اور مسئلے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے طالبان کا افغان حکومت کو بات چیت کرتے ہوئے مسئلے کا دیرپا حل نکالے تاکہ ایک بہت بڑے انسانی المیے سے بچا جا سکے جوکہ اب صرف ہفتوں اور مہینوں کی بات ہے۔ طالبان کو بھی چاہیے کہ وہ حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے فوری ایسے اقدامات کریں جس سے دنیا کی انکی حکومت کے بارے میں رائے تبدیل ہو، پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کو بھی چاہیے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیکر ایک ایسی افغان پالیسی مرتب کی جائے جو زمینی حقائق کے عین مطابق ہو اور جس پر سب کا اتفاق ہو جب تک ہم ملک کے اندر اتفاق پیدا نہیں کرینگے اس وقت دنیا بھی ہماری بات نہیں سنے گی، اور ہمیںیقین ہے کہ عمران خان دانشمندی کے ساتھ اس بات کا جلد فیصلہ کرینگے تاکہ کسی بھی سنگین صورتحال سے بچا جا سکے۔ افغان مسئلہ ایک سنگین صورتحال اختیار کر چکاہے جس کے اثرات بھی سب سے زیادہ پاکستان پر ہونگے جیسا کہ ماضی میں ہوبھی چکاہے۔ دنیا کو بھی یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے کہ معاشی ناکہ بندیوں اور پابندیوں سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ اس سے انتہاپسندی جیسے رجحانات فروغ پاتے ہیں جس کا نقصان بھی سب کو ہوتاہے۔