اسلام آباد (وقائع نگار) اٹارنی جنرل نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں موقف اپنایا کہ یہ عدلیہ کو ہراساں کرنے اور دباؤ ڈالنے کا سیزن ہے۔ کبھی کوئی آڈیو، کبھی کوئی ڈاکومنٹ ریلیز کیا جاتا ہے۔ یہ پراکسی جنگ ہے، ایک شخص کیلئے بار بار ویڈیوز آ رہی ہیں۔ ایک سزا کیخلاف اپیل چل رہی ہے جس کے لیے پوری عدلیہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ سندھ ہائی کورٹ بار کے صدر نے کہا وزیراعظم عمران خان کے عدلیہ اور ججز کے خلاف بیانات بھی نکال کر دیکھ لیں۔ عوام کا آزاد، غیر جانبدار عدلیہ پر اعتماد بحال کرنا ضروری ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو ٹیپ کی تحقیقات کے لیے اچھی شہرت کے حامل افراد پر مشتمل تحقیقاتی کمشن تشکیل دینے کے لیے سندھ ہائی کورٹ بار کے صدر صلاح الدین ایڈووکیٹ کی درخواست پر سماعت کی۔ اٹارنی جنرل عدالتی نوٹس پر پیش ہوئے اور کہا یوں لگتا ہے یہ پراکسی درخواست ہے۔ ایسا تاثر نہیں ملنا چاہئے کہ درخواست گزار کسی اور کا کیس لڑ رہے ہیں۔ درخواست گزار نے 2017 کے واقعات کا ذکر کیا ہے۔ ایک اور وزیراعظم تھا جسے مبہم عدالتی حکم پر پھانسی بھی دی گئی۔ جلا وطن کرنے کی سہولت ایک وزیراعظم کو دی جاتی ہے تو بھٹو کو کیوں نہیں؟۔ جو بھی زندہ لوگ ہیں ان سب کا احتساب کر لیتے ہیں۔ صرف ایک وزیراعظم کے لیے پراکسی بن کر کیوں لوگ عدالت آرہے ہیں؟۔ درخواست گزار نے کہا یہ توجہ ہٹانے کے لیے کہا جاتا ہے کہ 70 سال کا احتساب کریں یا کسی کا نہ کریں۔ میرا موقف یہ ہے عدالتوں کو متنازعہ کیا جا رہا ہے، عدلیہ تحقیقات کروا کر یہ سلسلہ روک سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا آج کل ایڈوانس ٹیکنالوجی ہے کوئی بھی آڈیو یا ویڈیو بن سکتی ہے، کوئی بھی آڈیو بنا کر کہہ دے اس پر تحقیقات کریں۔ اس آڈیو پر تحقیقات شروع کردیں تو زیر التوا اپیلوں پر کیا اثر پڑے گا؟۔ اٹارنی جنرل حکومت سے کہہ کر ماضی کا جو احتساب کرنا ہے کر لیں، اس کیس سے ماضی کے کیسز جوڑنے کی ضرورت کیوں پڑ رہی ہے؟ بیان حلفی کا کیس اسی عدالت میں زیر التوا ہے، آڈیو لیک کا معاملہ بھی قابل سماعت ہو سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا بیان حلفی کا معاملہ الگ ہے وہ بیان حلفی دینے والے عدالت آگئے ہیں۔ جن لوگوں کے کیسز ہیں وہ اگر کوئی آڈیو عدالت نہیں لاتے تو ہم کیوں تحقیقات کرائیں؟۔ مزید سماعت 24 دسمبر کو ہو گی۔کوئی آڈیو کی اونر شپ لینے والا ہے؟ چیف جسسٹس اطہر من اللہ نے درخواست گزار سے پوچھا کہ بتائیں آپ کے پاس گرائونڈ کیا ہے اس درخواست کی؟، اٹارنی جنرل نے آج آپ کو بڑی آفر کی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ درخواست ترمیم کر کے لائیں میں سارا معاملہ پارلیمنٹ لیکر جاؤں گا۔ درخواست میں ماضی کے معاملات پر بھی تحقیقات کی استدعا شامل کریں۔ میرا بنیادی اعتراض یہی ہے کہ یہ پراکسی پٹیشن ہے۔ درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل جاری رہے اور عدالت نے سماعت 24 دسمبر تک ملتوی کر دی۔
پراکسی جنگ عدلیہ کو دبانے کا سیزن بھٹو ، کو جلا وطنی کی سہولت کیوں نہ ملی
Dec 09, 2021