پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی پیاری پیاری باتیں!!!!!


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ ہر نبی کو ایسے ایسے معجزات عطا کئے گئے کہ (انہیں دیکھ کر لوگ) ان پر ایمان لائے (بعد کے زمانے میں ان کا کوئی اثر نہیں رہا) اور مجھے جو معجزہ دیا گیا ہے وہ وحی (قرآن) ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر نازل کی ہے۔ (اس کا اثر قیامت تک باقی رہے گا) اس لیے مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن میرے تابع فرمان لوگ دوسرے پیغمبروں کے تابع فرمانوں سے زیادہ ہوں گے۔ حضرت جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم بیمار پڑے اور ایک یا دو راتوں میں (تہجد کی نماز کے لیے) نہ اٹھ سکے تو ایک عورت (عوراء بنت رب ابولہب کی جورو) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے پاس آئی اور کہنے لگی محمد! میرا خیال ہے کہ تمہارے شیطان نے تمہیں چھوڑ دیا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی(ترجمہ) قسم ہے دن کی روشنی کی اور رات کی جب وہ قرار پکڑے کہ آپ کے پروردگار نے نہ آپ کو چھوڑا ہے اور نہ وہ آپ سے خفا ہوا ہے۔ صفوان بن یعلیٰ بن امیہ نے خبر دی کہ (میرے والد) یعلیٰ کہا کرتے تھے کہ کاش میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو اس وقت دیکھتا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم پر وحی نازل ہوتی ہو۔ چناچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم مقام جعرانہ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے اوپر کپڑے سے سایہ کردیا گیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے ساتھ آپ کے چند صحابہ موجود تھے کہ ایک شخص کے بارے میں کیا فتویٰ ہے۔ جس نے خوشبو میں بسا ہوا ایک جبہ پہن کر احرام باندھا ہو۔ تھوڑی دیر کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے دیکھا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم پر وحی آنا شروع ہوگئی۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یعلیٰ کو اشارہ سے بلایا۔ یعلیٰ آئے اور اپنا سر (اس کپڑے کے جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے لیے سایہ کیا گیا تھا) اندر کرلیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا چہرہ اس وقت سرخ ہو رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم تیزی سے سانس لے رہے تھے، تھوڑی دیر تک یہی کیفیت رہی۔ پھر یہ کیفیت دور ہوگئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے دریافت فرمایا کہ جس نے ابھی مجھ سے عمرہ کے متعلق فتویٰ پوچھا تھا وہ کہاں ہے؟ اس شخص کو تلاش کر کے آپ کے پاس لایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ان سے فرمایا کہ جو خوشبو تمہارے بدن یا کپڑے پر لگی ہوئی ہے اس کو تین مرتبہ دھو لو اور جبہ کو اتار دو پھر عمرہ میں بھی اسی طرح کرو جس طرح حج میں کرتے ہو۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ جبرائیل (علیہ السلام) نے مجھ کو (پہلے) عرب کے ایک ہی محاورے پر قرآن پڑھایا۔ میں نے ان سے کہا (اس میں بہت سختی ہوگی) میں برابر ان سے کہتا رہا کہ اور محاوروں میں بھی پڑھنے کی اجازت دو۔ یہاں تک کہ سات محاوروں کی اجازت ملی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم خیر خیرات کرنے میں سب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں آپ کی سخاوت کی تو کوئی حد ہی نہیں تھی کیونکہ رمضان کے مہینوں میں جبرائیل (علیہ السلام) آپ سے آ کر ہر رات ملتے تھے یہاں تک کہ رمضان کا مہینہ ختم ہوجاتا وہ ان راتوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے ساتھ قرآن مجید کا دورہ کیا کرتے تھے۔ جب جبرائیل (علیہ السلام) آپ سے ملتے تو اس زمانہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم تیز ہوا سے بھی بڑھ کر سخی ہوجاتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ جبرائیل (علیہ السلام) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے ساتھ ہر سال ایک مرتبہ قرآن مجید کا دورہ کیا کرتے تھے لیکن جس سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی وفات ہوئی اس میں انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے ساتھ دو مرتبہ دورہ کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ہر سال دس دن کا اعتکاف کیا کرتے تھے لیکن جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا۔ 
عبداللہ بن عمرو بن العاص نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر کیا اور کہا کہ اس وقت سے ان کی محبت میرے دل میں گھر کرگئی ہے جب سے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ قرآن مجید کو چار اصحاب سے حاصل کرو جو عبداللہ بن مسعود، سالم، معاذ اور ابی بن کعب ہیں۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں اس اللہ کی قسم جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں کتاب اللہ کی جو سورت بھی نازل ہوئی ہے اس کے متعلق میں جانتا ہوں کہ کہاں نازل ہوئی اور کتاب اللہ کی جو آیت بھی نازل ہوئی اس کے متعلق میں جانتا ہوں کہ کس کے بارے میں نازل ہوئی، اور اگر مجھے خبر ہوجائے کہ کوئی شخص مجھ سے زیادہ کتاب اللہ کا جاننے والا ہے اور اونٹ ہی اس کے پاس مجھے پہنچا سکتے ہیں (یعنی ان کا گھر بہت دور ہے) تب بھی میں سفر کر کے اس کے پاس جا کر اس سے اس علم کو حاصل کروں گا۔
ابوسعید بن معلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نماز میں مشغول تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے مجھے بلایا اس لیے میں کوئی جواب نہیں دے سکا، پھر میں نے (آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر) عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نماز پڑھ رہا تھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کیا اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم نہیں فرمایا ہے(ترجمہ )کہ اللہ کے رسول جب تمہیں پکاریں تو ان کی پکار پر فوراً اللہ کے رسول کے لیے لبیک کہا کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا مسجد سے نکلنے سے پہلے قرآن کی سب سے بڑی سورت میں تمہیں کیوں نہ سکھا دوں۔ پھر آپ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور جب ہم مسجد سے باہر نکلنے لگے تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے ابھی فرمایا تھا کہ مسجد کے باہر نکلنے سے پہلے آپ مجھے قرآن کی سب سے بڑی سورت بتائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ ہاں وہ سورت الحمد للہ رب العالمین ہے یہی وہ سات آیات ہیں جو (ہر نماز میں) باربار پڑھی جاتی ہیں اور یہی وہ قرآن عظیم ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن