معزز قارئین !۔ 20 نومبر 2022ء کے ’’ نوائے وقت ‘‘ میں ’’ قابل ِ فخر قومی تراؔنہ / صدرِ مملکت ؔکا شُکرانہؔ! ‘‘کے زیر عنوان میں نے اپنے کالم میں ’’جنابِ حفیظ جالندھری سے ملاقات !‘‘ کا مختصر تذکرہ کِیا تھا لیکن، آج مَیں (تحریک پاکستان کے نامور کارکن ، ماہر اقبالیات ، محقق اور شاعر پروفیسر محمد منور مرزا (مرحوم) کے چھوٹے بھائی )، اپنے بچپن کے دوست (یار ) ممتاز دانشور ، ماہر اقبالیات، بزم اقبال، حکومت پنجاب کے کنسلٹنٹ، معروف کالم نگار، نظریہ پاکستان فائونڈیشن کے سابق ڈائریکٹر ریسرچ ، علامہ پروفیسر محمد مظفر مرزا کی 10 ویں برسی ( جو ، اُن کے عزیز و اقارب اور دوستوں نے کل،8 دسمبر کو، منائی ) کے بارے زیادہ گفتگو کروں گا۔ اُس وقت مَیں اسلام آباد میں تھا ’’ جب، 8 دسمبر 2012ء کو، مجھے سیکرٹری ’’ نظریہ پاکستان ٹرسٹ‘‘ سیّد شاہد رشید (اب مرحوم) نے لاہور سے ٹیلی فون پر بتایا تھا کہ علاّمہ پروفیسر محمد مظفر مرزا انتقال کرگئے ہیں ۔
’’ڈاھڈے ربّ کے ہاتھ میں!‘‘
معزز قارئین !۔ مَیں نے اپنے دوست محمد مظفر مرزا کی وفات کی خبر سُنی تو، میرا شوگر لیول پہلے سے زیادہ بڑھ گیا۔ بہر حال فوراً ہی نمازِ جنازہ میں شرکت کی اور 10 دسمبر2012ء کو، میرے کالم کا عنوان تھا ’’ میرا یار مظفر مرزا…!‘‘ دس بارہ دن پہلے ہی ، میرے بچپن کے اِس دوست اور گورنمنٹ کالج سرگودھا میں 1957ء سے 1961ء تک، میرے کلاس فیلو، مظفر مرزا نے ، مجھ سے اسلام آباد آنے اور میرے ساتھ دو تین دن گزارنے کا وعدہ کِیا تھا ، لیکن ہماری زندگی کی ڈور تو ،ڈاھڈے ربّ کے ہاتھ میں ہے۔ مظفر مرزا بہت ہی پیارا انسان تھا۔ سرگودھا کے بلاک نمبر 15میں ہمارے گھر ، پاس پاس تھے۔ اْن کے والد صاحب مرزا محمد ہاشم اْلدّین خان ریٹائرڈ سکول ٹیچر تھے اور بہت ہی نیک ، خوب صورت اور خوب سیرت انسان ۔میرے والد صاحب، تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن ، رانا فضل محمد چوہان کی، مرزا محمد ہاشم اْلدّین خان سے بہت دوستی تھی، اکثر گپ شپ رہتی تھی۔ میں مرزا صاحب کو تایا جی کہتا تھا۔اْن کی دوستی کی وجہ سے ہی، میری مظفر مرزا سے دوستی ہوگئی ۔
’’ گورنمنٹ کالج میں ! ‘‘
کالج میں بھی ،مظفر مرزا بہت زیادہ ’’ پڑھاکو‘‘ تھا۔ میری طرح غیر نصابی سرگرمیوں میں بہت کم حِصّہ لیتا تھا۔ اتفاق سے ہمارے دو پیریڈ اکٹھے تھے ، اِس لئے روزانہ ملاقات ہوتی تھی۔ مظفر مرزا ، خوبصورت اور خوش لباس تھا، اور کالج میں بن ٹھن کر رہتا تھا۔ میں نے اِس موضوع پر ایک ہلکی پھْلکی نظم لِکھ کر کچھ دوستوںمیں، اْس کی نقول تقسیم کر دیں۔ مظفر مرزا نے انگریزی کے پروفیسر، مختار محمود قریشی سے شکایت کر دی۔ پروفیسر مختار محمود قریشی ، پروفیسر مرزا محمد منّور کے دوست تھے۔ انہوں نے مظفر مرزا سے کہا کہ ’’نظم میں تو تمہاری خوبصورتی اور خوش لباسی کی تعریف کی گئی ہے ‘‘۔ پھر قریشی صاحب نے مظفر مرزا سے میری دوستی پکی کرا دی۔
’’ سینٹ کا ٹکٹ! ‘‘
جنوری 2012ء کومجھے علّامہ پروفیسر محمد مظفر مرزا نے بتایا کہ ’’ میری خواہش ہے کہ ’’ وزیراعظم میاں نواز شریف مجھے سینٹ آف پاکستان کا ٹکٹ دے دیں تو، مَیں قوم کی بڑی خدمت کروں گا !‘‘ ۔ اِس پر مَیں نے ، محمد مظفر مرزا کی حمایت میں پنجابی زبان میں ایک نظم لِکھی اور سیّد شاہد رشید کو بھجوا دی۔ شاہد رشید نے وہ نظم ’’مفسرِ نظریہ پاکستان ‘‘جناب مجید نظامی کو پیش کی۔نظامی صاحب نے، اسے 22 جنوری (اتوار) کو ’’نوائے وقت‘‘ کے کالم ’’ سرِ راہے ‘‘۔کی زینت بنا دیا۔ ’’ نوائے وقت‘‘ کی تاریخ میںاِس سے قبل پنجابی زبان کی کوئی نظم شائع نہیں ہوئی تھی۔ یہ پروفیسر محمد مظفر مرزا سے، محترم مجید نظامی کی ،بے پناہ شفقت کا ثبوت تھا۔میری نظم کا عنوان تھا۔’’ میرا یار مظفر مرزا ہْن، سینٹ دا ٹکٹ اِک منگدا ،اے!‘‘
سرراہے
معزز قارئین !۔ جنابِ مجید نظامی کی شفقت سے ’’ سرراہے ‘‘میں لکھا گیا تھا کہ ’’ اثر چوہان نے ’’ سینیٹر مظفر مرزا کی سینیٹر بننے کی نوخیز تمنا پر ایک ایسی سفارشی نظم ، میاں نواز شریف کے نام لکھی ہے کہ اگر وہ سینیٹر نہ بن سکے ، تب بھی سینیٹر مظفر مرزا کہلائیں گے ۔ اُن کی نظم کا عنوان ہے ’’ میرا یار مظفر مرزا ہُن سینٹ دا ٹکٹ اِک منگدا اے!‘‘نظم ملاحظہ فرمائیں…
مَیں جاننا، ایس نُوں، لڑکپن توں،
منگن توں، اُکّا سنگدا اے!
میرا یار مظفر مرزا ہُن سینٹ دا،
ٹکٹ اِک منگدا اے!
…O…
نِکّا بھائی، منور مرزا ،دا ،
تے سرگودھے دِی ،جَمّّ پَل اے!
پر، شاہد ؔرشید دا کہنا اے،
مَینوں لگدا اے ، ایہہ جھنگ ؔدا اے!
…O…
ایہہ بندہ علاّمہ، فہامہ اے، تے،
اُردو ادب دا، گاما ؔاے!
ایہدے مُرشد مجید نظامی نیں،
نئیں چیلا، کسے ملنگؔ دا اے!
…O…
ایہہ، ساٹھا، پاٹھا لگدا اے،
تے وال وی، سارے کالے نیں!
جیویں رانا ثناء اؔللہ رنگدا،
اوویں، یار میرا وی، رنگدا اے!
…O…
نہ خوش ہوندا، نہ غم کردا،
ایہہ چُپ چپیتے کم کردا!
اینھے دو سو ڈینگی،ؔ مارے نیں ،
ایہہ دُشمن کِیٹ ؔپتنگ دا اے!
…O…
ایہہ پڑھدا نمازِ پنج گانہ،
تے پنجے عیب شرعی کوئی ناں!
نہ شراب، کباب نُوں مُنہ لاوے،
نہ رسیا، رباب تے چنگ دا اے!
…O…
دفتر توں سِدّھا گھر جاندا،
جاندا تبلیغی جماعتؔ نال!
نیکاں کول، ہوندا کھلوندا،
اے، نہ سنگی کسے، کُسنگ ؔدا اے!
…O…
ایہدیا ں علم ، و فضل دِیاں دُھماں ،
پیاں، پنڈاں وِچ، تے شہراں وِچّ!
جیویں پڑھیاں لِکھیاں،
لوکاں وِچ ّ، چرچا، خانہ فرؔہنگ دا اے!
…O…
مَیں، رفاقت رؔیاض دِی موٹر،
تے کمپین چلاواں گا ، ایس دی!
کِہہ ہویا جے ، میرے یار وانگ ،
میرا وِی مسئلہ کھنگ دااے!
…O…
مَیں رائے وِنڈ جاواں گا اثرؔ،
تے عرض کراں گا شریفاںؔ نُوں!
دیو ٹکٹ، مظفر مرؔزا نُوں،
ایہہ بندہ تہاڈے ڈؔھنگ دا اے!
… O …
معزز قارئین !۔ اب مَیں کیا کہوں ؟ شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال پہلے ہی مرنے والوں کے پسماندگان کے بارے میں کہہ گئے تھے ہیں کہ …
’’ مرنے والے مرتے ہیں ، لیکن فنا ہوتے نہیں!
وہ حقیقت میں کبھی ہم سے جُدا ہوتے نہیں !
…O…