اسلام آباد(وقائع نگار)اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان پر مشتمل ڈویژن بنچ میں زیر سماعت نور مقدم قتل کیس میں اپیلوں پروکلا کے دلائل جاری رہے۔گذشتہ روز سماعت کے دوران چیف جسٹس نے مجرم چوکیدارمحمد افتخار کے وکیل راجہ شفاعت سے استفسار کیاکہ آپ کے موکل کو کتنی سزا ہوئی تھی؟، جس پر وکیل نے بتایاکہ میرے موکل کو دس سال سزا قید اور ایک لاکھ جرمانہ کیا تھا،عدالت نے کہاکہ آپ کہہ رہے کہ میرا موکل چوکیدار ہے اور گھر کے اندر کیا ہے اس کو نہیں پتہ؟، وکیل نے کہاکہ جی میرا موکل چوکیدار ہے اور گھر کے اندر کیا ہورہا اسے کچھ نہیں پتہ،عدالت نے کہاکہ سی سی ٹی وی میں مجرم مقتولہ کو گھسیٹ کر لے جارہا تھا، آپ کے موکل نے روکا کیوں نہیں؟،آپ کے موکل نے جب دیکھا کہ انکا مالک مقتولہ کو گھسیٹ کر لے جارہا تھا تو کیا انکو اپنے مالک کو روکنا نہیں چاہیے تھا؟،یا آپ کہیں کہ آپکا موکل وہاں نہیں تھا، اور یا آپ کہیں کہ اپنے مالک کو روکنا انکا کام نہیں تھا،آپ کے خلاف صرف سی سی ٹی وی فوٹیج بار ثبوت ہے؟، وکیل نے کہاکہ میرے موکل کا قتل سے یا معاونت سے کوئی تعلق نہیں،عدالت نے کہاکہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں سے آپ کے موکل کا کوئی کردار سامنے آتا ہے؟، کیا آپکے موکل کا مقتولہ کو روکنے یا تشدد کرنے کا کوئی کردار سامنے آتا ہے؟، اس پر وکیل نے کہاکہ میرے موکل محمد افتخار کا اس سارے واقعے میں کہیں کوئی کردار نہیں،مقتولہ اس گھر میں باقاعدگی سے آتی رہی،چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ ٹرائل کورٹ نے آپ کو کیوں سزا دی ؟،جس پر وکیل نے کہاکہ میرے موکل نے دروازے کو بند کیا،جسٹس سرداراعجاز اسحاق خان نے کہاکہ ڈی وی آر کی حد تک ہے کہ مقتولہ باہر جانا چاہ رہی تھی اور آپ کے موکل نے دروازہ نہیں کھولا، جس پر وکیل نے کہاکہ جس دن کا کہا گیا اس دن وہ باہر چلی گئی اور پھر وہ واپس آگئی،جسٹس سرداراعجاز اسحاق خان نے استفسار کیاکہ آپ کے موکل کو قتل میں تو سزاوار نہیں کیاگیا، جس پر وکیل نے کہاکہ مقتولہ کے اغوا کیس کا کوئی ثبوت نہیں ہے،عدالت نے کہاکہ اگر مقتولہ درخواست کررہی تھی کہ مجھے جانے دیں اور آپ کے موکل نے جانے نہیں دیا تو یہ اغوا نہیں ہے؟، جس پر وکیل نے کہاکہ اگر دونوں کا تعلق نہ ہوتا تو شاید ایسا ہوتا، چیف جسٹس نے کہاکہ اگر کسی کے گھر مہمان آئے اور وہ باہر جانا چاہے تو کیا چوکیدار نے باہر نہیں جانے دینا کہ مالک کی اجازت کے بغیر جانے نہیں دونگا،وکیل نے کہاکہ جب چوکیدار نے باہر جانے کی اجازت نہیں دی اس کے بعد یہ دونوں گھر سے باہر گئے،عدالت نے کہاکہ ڈی وی آر کے مطابق جب نور مقدم گھر سے جارہی تھی تو افتخار اور جان محمد نے دروازہ بند کردیا،20 تاریخ کو مقتولہ کو قتل کیا گیا، اور بیس تاریخ کو ہی وہ گھر سے باہر جانا چاہ رہی تھی،اس پر وکیل نے کہاکہ چوکیدار نے گیٹ بند کردیا، مقتولہ کو جانے سے نہیں روکا،عدالت نے کہاکہ گھر سے باہر جانے سے جب روکا گیا اسی دن قتل کیا گیا، اس سے پہلے وہ آئے آگئے وہ الگ معاملہ ہے، ٹرائل کورٹ کی فائنڈنگ سے واضح ہے کہ مقتولہ کو اغوا کیا گیا،جب مقتولہ نے بالکونی سے چھلانگ لگا کر باہر جانے کی کوشش کی تو چوکیدار افتخار نے گیٹ بند کیا،وکیل نے کہاکہ جب مقتولہ گھر سے باہر جارہی تھی ان کے ہاتھ میں موبائل تھا،عدالت نے کہاکہ جب کسی پر گزر رہی ہوتی ہے تب کوئی بندہ ہر ایک چیز پر ایکٹ نہیں کرسکتا،آپ کے اوپر الزام یہ ہے کہ آپ نے انکو گھر کے باہر جانے سے روک دیا،چیف جسٹس نے کہاکہ آپ نے مفروضہ بنایا کہ پولیس نے موبائل بعد میں توڑا،جب مقتولہ نے چھلانگ لگائی ہوسکتا ہے موبائل تب ٹوٹ گیا ہو،آپ کہہ رہے ہیں کہ مقتولہ نے فون کیوں نہیں کیا،جسٹس سرداراعجازاسحاق خان نے کہاکہ آپ کے مطابق کہ مجرم اور مقتولہ کا آپس میں تعلق تھا،ایسا کیا ہوا کہ مقتولہ نے چھلانگ لگائی اور مجرم نے بھی وہاں سے چھلانگ لگائی؟، عدالت نے کہاکہ آپ کہہ رہے ہیں کہ مقتولہ نے والدہ سے فون پر بات کی مگر وہ واقعہ سے سات آٹھ گھنٹے پہلے ہوئی، اگر کوئی مرضی سے کسی کے گھر آئے اور پھر وہ مرضی سے باہر نہ جاسکے تو کیا وہ اغوا کا کیس نہیں، کریمنل کیسز میں پلاننگ چار دن پہلے نہیں ہوتی، ایک ہی لمحے میں واقع ہو جاتا ہے،مجرم چوکیدار افتخار کے وکیل راجہ شفاعت کے دلائل جاری رہے جو آئندہ سماعت پر بھی جاری رہیں گے اور۔عدالت نے کیس کی سماعت منگل تک کے لئے ملتوی کردی۔
نور مقدم قتل کیس ،اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیلوں پروکلا کے دلائل جاری
Dec 09, 2022