پروفیسری:درویشی بھی، عیاری بھی 


ہمارے ملک میں یونیورسٹی سطح کی پروفیسری ایک آرٹ کی حیثیت رکھتی ہے اور بقول میر ”یہ فن ِ عشق ہے ،آوے اُسے طینت میں جس کی ہو“۔جس طرح عشق و محبت کیلئے کچھ دل مخصوص ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح ہر شخص پروفیسرنہیں ہوسکتا ۔ سرکاری یونیورسٹیوں میںپروفیسری بہت باریکی کا کام ہے اورایک خاص مزاج اور طرزِ زندگی رکھنے والے افراد ہی ان پیچ دار راہوںمیں سرخرو ہوتے ہیں۔ کلاس میں تدریسی مہارت، طلبہ کو علمی حوالے سے مطمئن کرنا ،تخلیق و تحقیق کے لیے موزوں ماحول فراہم کرنا،سماجی مسائل کا حل تجویز کرناوغیرہ اتنا اہم نہیںہوتا۔ جو چیز ضروری ہے،وہ جی حضوری ہے۔ ایک یونیورسٹی پروفیسر کی پہلی ذمہ دار ی وائس چانسلر اور اسکی کابینہ سے وفاداری ہے۔ طلبہ کی علمی تشفی چاہے نہ ہو،ایک دنیا آپ سے خفا ہو لیکن انتظامیہ کی خوشنودی ہر حال میں حاصل ہو۔ ان آبگینوں کو کہیں ٹھیس نہ لگ جائے وگرنہ جادہ¿ فن میں بڑے سخت مقام آتے ہیں۔اگر یونیورسٹی کے بڑے کسی جگہ خطاب کر رہے ہیں تو آپکے منہ سے واہ واہ ہی نکلے۔اگر کسی اجلاس کی صدارت کر رہے ہیں،کوئی فیصلہ سازی ہو رہی ہے تو” ہاتھی کے پاو¿ں میں سب کا پاو¿ں“کے مصداق آپ نے خاموش رہتے ہوئے ان کی ہاں میں ہاں ملا دینی ہے۔ کسی نئی سوچ،متبادل تجویز اور مخالف نقطہ¿ نظر کی یہاں گنجائش نہیںبلکہ ”لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام“۔ ہوا کے مخالف جانا،بھیڑ سے ہٹ کر چلنا ہمارے پروفیسرز کو کم ہی نصیب ہوتا ہے۔ 
 آج کے ڈیجیٹل دور میں پروفیسرز کی ذمہ داریاں بھی بڑھ گئی ہیں۔ہمارے کچھ وائس چانسلرزکو سوشل میڈیا کا چسکاپڑ چکاہے۔ وہ اپنی نقل و حرکت اور اعمال و افعال کی چھوٹی سے چھوٹی خبر سے بھی عوام الناس کو محروم نہیں رکھنا چاہتے اور یونیورسٹی کے آفیشل پیج کے علاوہ انہوں نے فیس بک پر اپنے نام سے پیجز بنا رکھے ہیں۔جب وائس چانسلر صاحب کوئی پوسٹ کرتے ہیں تو نیچے پروفیسرز کا ایک جم ِ غفیر اسے لائک،کمنٹ اور شیئر کرکے چار دانگ عالم میں پہنچاتا ہے اور بڑے صاحب کی رونق بڑھاتا ہے۔ 
پروفیسرز کی ترجیح تدریس اورکلاس روم نہیں رہی۔ انہیں زیادہ فکر ان باتوں کی ہے کہ کس طرح دیگر رفقائے کار کو پچھاڑ کر ترقی حاصل کرنی ہے؟کیسے غیر معیاری ریسرچ پیپرز چھاپ کر انعام واکرام حاصل کرناہے؟کیا ساز باز کرکے انتظامی عہدوں پر بیٹھنا ہے؟کیسے اندرون و بیرون ملک نرم دل ریفریز سے من پسند رپورٹس لےکر سلیکشن بورڈ میں کامیاب ہونا ہے؟ ہمارے ملک میں اب پی ایچ ڈی کرنا اور کروانا ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ پی ایچ ڈی ہولڈرزسے کسی مسئلے پر گفتگو کے بعد آپ سوچنے لگ جائیں کہ یہ یارانِ تیزگام تو علمی حوالے سے گزشتہ صدی کے ماسٹر پاس پروفیسر سے بہت پیچھے ہیں۔ گہرے مطالعے،کتابیں پڑھنے اورنئے علم سے خود کو تر وتازہ رکھنے کی ضرورت نہیں۔کسی اصل تحقیق کے بِنا، انٹرنیٹ پر دستیاب لٹریچر اور آئیڈیاز کو اٹھاکر ریسرچ پیپرز میں جما دیا جاتا ہے اور یوں اپنی قسمت بلند کی جاتی ہے۔ جو ایک بار پی ایچ ڈی کر لیتا ہے،اس کی اگلی خواہش یہ ہوتی ہے کہ سپروائزر بن کر بغیر کسی وقفے یا منصوبہ بندی کے زیادہ سے زیادہ پی ایچ ڈی پیدا کرے۔پی ایچ ڈی کا امیدوار خود پر مہربان سپروائزر منتخب کرتا ہے، سپروائزر اسی طرح مقالے کی چانچ کیلئے اپنے تعلق ناطے والا ایکسٹرنل ایگزامینربلا لیتا ہے اوریوں ہنسی خوشی آپ پی ایچ ڈی ہو جاتے ہیں۔
چند دن پہلے ایک نیم سرکاری یونیورسٹی میں لیکچرار کے انٹریو کیلئے آئے امید وار سے رجسٹرار نے کہا کہ جس مقالے پر آپ کو ڈگری ملی ہے، اس کا تو تحقیقی موضوع اور طریقہ کار ہی غلط ہے۔ امیدوار نے اپنی غلطی پر معذرت چاہی اور بولا: ”سر آپکی تصحیح کا شکریہ۔ لیکن میرے اس موضوع کی میرے ریسرچ سپروائزر سمیت سات لوگوں پر مشتمل ڈاکٹورل پروگرام کوآرڈی نیشن کمیٹی نے منظور ی دی ہے۔جس کی ایک ممبر میرے یونیورسٹی ڈیپارٹمنٹ کی یہ ڈاکٹر صاحبہ بھی ہیں ،جو آپ کے ساتھ پینل میں بیٹھ کر میرا انٹرویو کر رہی ہیں“۔ رجسٹرار نے کہا :”بیٹا ہمیں آپ سے گلہ نہیں ، ایسے اداروں کو ہی بند ہوجا ناچاہیے“۔اس پر دوسری یونیورسٹی سے آئی ڈاکٹر صاحبہ نے چہرے کے آگے فائل رکھ کر اپنی ندامت چھپائی۔ 

ای پیپر دی نیشن