مولانا زبیراحمد صدیقی
جوں جوں عہد رسالت سے دوری بڑھ رہی ہے، قیامت قریب تر ہورہی ہے، روز بروز اہل اللہ، مشائخ اوراخیار و ابرار دنیا سے اٹھتے جارہے ہیں، گزشتہ چند برسوں سے تو جبال علم و عمل ، رجال کار ، اصحاب فتویٰ و تقوی، وارثان انبیائ ورسل علیہم السلام، حاملان شریعت و طریقت، داعیان دین و مذہب اتنی تیزی سے راہی اجل ہوئے ہیں جیسے تسبیح ٹوٹ جانے پر تسبیح کے دانے یکے بعد دیگرے زمین پر گرتے چلے جاتے ہیں۔ اہل اللہ اور علماء کا تیزی سے اٹھ جانا بھی علامات قیامت سے شمار کیا گیا ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے ،(صحیح بخاری:۶۵۱۴):
نیک لوگ یکے بعد دیگرے اٹھائے جائیں گے اور کجھور و جو کے چھلکے کی طرح لوگ باقی رہ جائیں گے، اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی ذرہ بھی پرواہ نہیں کریں گے۔مذکورہ بالا حدیث کی شرح میں علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ اپنی شہرہ آفاق کتاب فتح الباری شرح بخاری میں ارشاد فرماتے ہیں:’’نیک لوگوں کے چلے جانے کے بعد باقی ماندہ بے حیثیت لوگوں کا اللہ کے ہاں کوئی وزن و مقام نہ ہوگا، ایسے لوگوں پر ہی قیامت قائم ہوگی، ابن بطال کا فرمان ہے کہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نیک لوگوں کی وفات علامات قیامت میں سے ہے۔ نیک لوگوں کی مخالفت کی وجہ سے اس بات کا اندیشہ رہتا ہے کہ مخالفت کرنے والے ان لوگوں میں شامل نہ ہوجائیں جن کی حق تعالیٰ کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ بھی ممکن ہے کہ آخر زمانہ میں اہل خیر بالکل ختم ہو جائیں اور صرف اہل شر ہی باقی بچ جائیں‘‘
حدیث بالا سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اہل علم کے وجود کو غنیمت جانا جائے،ان کی قدر کی جائے، ان کے جانے کے بعدنعم البدل کی دعا بھی کی جائے۔اہل علم کا وجود بہت سے فتنوں کی بندش کا ذریعہ ہوتا ہے، ان کے دم قدم سے فتنے دبے رہتے ہیں، ان کے ہوتے ہوئے امت کا ایمان و عمل محفوظ رہتا ہے، ان کے دنیا سے اٹھتے ہی فتنوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور امت کا ایمان و عمل خطرہ میں پڑجاتا ہے۔ آپ ؐ کا اس ضمن میںمندرجہ ذیل دعا اورہدایت مانگنے کیلئے ارشاد ہے’(سنن الترمذی:۵۳۲۳): اے اللہ!میں تجھ سے توفیق چاہتا ہوں نیکیوں کے کرنے کی اور برائیوں کے چھوڑنے کی اور غریبوں کی محبت کی اور یہ کہ تو مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم کرے اور جب تو کسی جماعت پر مصیبت ڈالنے کا ارادہ کرے تو مجھے اس مصیبت میں مبتلاء ہوئے بغیر اٹھالینا اور میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور اس شخص کی محبت (بھی ) جو تجھ سے محبت رکھتا ہے اور اس عمل کی (بھی) محبت جو تیری محبت سے قریب کر دے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ حق ہے اسے پڑھو اور دوسروں کو پڑھاؤ، سکھاؤ۔ یہ دعااسی جانب اشارہ کر رہی ہے کہ فتنوں کی آمد سے قبل نیک لوگوں کو اللہ تعالیٰ اٹھالیتے ہیں۔ جب تک ’’راسخین فی العلم‘‘ موجود ہوتے ہیں ، روئے ارض پر ان کی علمی شمع سے جہالت کا اندھیرا کافور رہتا ہے، جیسے ہی وہ دنیا سے جاتے ہیں تو جہالت کی ظلمات چھا جاتی ہیں، قرب قیامت میں تو علمائ کے چلے جانے سے اس قدر جہل کے پھیلنے کی پیشین گوئی کی گئی ہے کہ جب کوئی بھی عالم و مفتی باقی نہ رہے گا تو جاہل مسند علم و افتاء پر براجمان ہوکر غلط فتوے جاری کریں گے، صحیح بخاری میں ارشاد نبویؐ ہے:
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؒسے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہؐ سے سنا،آپ فرماتے تھے کہ اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے۔ بلکہ وہ (پختہ کار)علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنالیں گے۔ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ ’’کیا ان لوگوں کو یہ حقیقت نظر نہیں آئی کہ ہم ان کی زمین کو چاروں طرف سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں ؟ ہر حکم اللہ دیتا ہے، کوئی نہیں ہے جو اس کے حکم کو توڑ سکے، اور وہ جلد حساب لینے والا ہے۔‘‘ماہ گزشتہ میں ہمارے درمیان سے متعدد علماء کرام و مشائخ عظام دار بقاء کو کوچ کر گئے، اللہ پاک ہمیںان کی عالم انسانیت کیلئے بھلائی کا سلسلہ جاری رکھنے کے توفیق دے۔