مولانا اشرف علی تھانوی ایک ہمہ جہت شخصیت
مولانا مجیب الرحمن انقلابی
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کا شمار ان ممتاز ہستیوں میں ہوتا ہے جنھوں نے تحریک پاکستان میں نمایاں کردار ادا کیا اور بر صغیر کے مسلمانوں میں علم و حکمت کا فیضان جاری کیا۔ان ہی کے بارے میں قائد اعظم محمد علیؒ جناح نے کہا تھا کہ میرے پاس ایک ایسا عالم دین ہے کہ اگر اس کا علم ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے اور پورے ہندوستان کے بقیہ علماء کا علم دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے تو ان کا پلڑا بھاری ہو گا اور وہ ہیں مولانا اشرف علی تھانوی ۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے تو قیام پاکستان سے بھی پہلے اس ضرورت کی طرف علماء کو متوجہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا:’’ہوا کا رخ بتا رہا ہے کہ مسلم لیگ والے کامیاب ہو جائیں گے اور بھائی جو سلطنت ملے گی وہ انہی لوگوں کو ملے گی... لہٰذا ہم کو یہ کوشش کرنا چاہیے کہ یہی لوگ دیندار ہو جائیں۔‘‘قیامِ پاکستان میں مولانا اشرف علی تھانوی کی دعائیں کوششیں اور ان کے خلفاء و رفقاء کا بنیادی کردار ہے اسی وجہ سے مولانا اشرف علی تھانوی کے حکم پر بانی جامعہ اشرفیہ لاہور حضرت مفتی محمد حسن نے شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی، مولانا ظفر احمد عثمانی،مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع اور دیگر علمائے دیوبند کے ہمراہ تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیااورآ خر کارپاکستان بننے کے بعد مشرقی و مغربی پاکستان پر آزادی کا پرچم لہرانے کی سعادت ’’بزم اشرف‘‘ کے روشن چراغ اور دارالعلوم دیوبند کے قابل فخر سپوت حضرت مولانا علامہ شبیر احمد عثمانی اور مولانا ظفر احمد عثمانی کو حاصل ہوئی۔
اپریل 1943ء میں دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس ہوا جس میں شرکت کے لئے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے پاس دعوت نامہ ارسال کیا گیا دعوت نامہ کے جواب میں مسلم لیگ کی مذہبی تربیت کافریضہ انجام دیتے ہوئے لکھا کہ میری دو کتابیں ارکانِ مسلم لیگ عملی زندگی میں اختیار کر لیں، حیاۃ المسلمین اور صیانۃ المسلمین گویا کہ حضرت کی نظر میں ہندوستان میں مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت کا دستور اسی فکر کی روشنی میںہونا چاہئے تھا۔
حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا شاہ محمد اشرف علی تھانوی نے1930ء میں مسلمانوں کی حالت کودیکھتے ہوئے فرمایا تھا کہ مسلمانوں کی حالت کا تصور اگر کھانے سے پہلے آجاتا ہے تو بھوک اڑجاتی ہے اور سونے سے پہلے آجاتا ہے تو نیند اْڑ جاتی ہے،قیام پاکستان کے بعد مولانا جلیل احمد شیروانی (المعروف پیارے میاں)نے حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب بانی جامعہ اشرفیہ لاہور کی زیر سرپرستی مجلس صیانۃ المسلمین کے اس نظام کو جاری فرمایا۔ مولانا مشرف علی تھانوی و دیگر اکابرین کی سرپرستی میں حضرت مولانا وکیل احمد شیروانی? اور مولانا عبدالدیان سلیمی نے اپنے خون جگر سے اس مجلس کی آبیاری کی۔ آج بھی اس مجلس کے صدر حضرت مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور اور نائب صدر حضرت مولانا مفتی محمدطیب (فیصل آباد)اور نائب مہتمم وناظم اعلی جامعہ اشرفیہ مولاناقاری ارشد عبید (نگران اعلیٰ)و دیگر اکابرین کی سرپرستی میں اس کام میںمصروف عمل ہیں۔
ملک بھر کی امن کمیٹیاں اور علماء کرام قیام امن کیلئے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھا نوی کے اس سنہرے اصول اورخوبصورت امن فارمولے "اپنے مسلک کو چھوڑو نہیں اور دوسرے کے مسلک کو چھیڑو نہیں " پر عمل پیر ا ہیں۔مولانا اشرف علی تھانوی کے 200 سے زائد خلفاء ہیں جن میں سے چند ایک مشہور ہستیاں یہ ہیں مفتی محمد حسن، مولانا عبدالغنی پھولپوری ،ڈاکٹر محمد عبدالحی عارفی، مولانا مسیح اللہ خان، مولانا ابرارالحق حقی ، مولانا رسول خان ہزاروی، مولاناشیر محمد مہاجر مدنی ، مولانا قاری محمد طیب قاسمی ، علامہ سید سلیمان ندوی ، مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی، مولانا سید مرتضیٰ حسن چاندپوری، مولانا عبدالرحمن کامل پوری، مولانا عبدالباری ندوی ، خواجہ عزیز الحسن مجذوب وغیرہ...۔مولانا اشرف علی تھانوی کو اوقات کی پابندی کابہت زیادہ خیال رہتا۔جس کاکسی کو استثنا حاصل نہ ہوتا۔حضرت ِ تھانوی قرآن و حدیث، فقہ وتفسیر اور معرفت و سلوک میں غیرمعمولی امتیاز و تفوق کے علاوہ نفسیات شناس بھی تھے۔ انسانوں کی نفسیات میں انھیں گہرا دراک حاصل تھا۔ کس انسان سے کب اور کیا برتاؤ کیاجاے، اس سے وہ با خوبی واقف تھے۔ یہ وہ خوبی ہے، جو اصلاح و تربیت اور دعوت و تبلیغ کے کام کے لیے نہایت ناگزیر ہے۔
حضرت تھانوی واقعتہً حکیم الامت تھے۔ افرادِ امت کے حالات و کوائف باریک بینی سے دیکھتے اور ان کے امراض کاعلاج کرتے تھے۔ ان کی اِسی حکمت و دانائی اور فہم وتدبر کے باعث سیکڑوں گم گشتگانِ راہ کومنزل نصیب ہوئی۔مولاناتھانوی بے حد منظم اور بااصول شخص تھے انھوں نے اِسی نظم وضبط اور اصول وضوابط کی روایت کو اپنے مریدوں اور قریب رہنے والوں میں بھی پروان چڑھانے کی کوشش کی۔حقیقت یہ ہے کہ مولانا اشرف علی تھانوی کسی شخص یا فرد کانام نہیں، بلکہ ایک علمی، روحانی اور تربیتی ادارے کا نام ہے وہ اپنی ذات میں ایک ایسی دانش گاہ تھے، جس نے اصلاح و تربیت کے لاتعداد پیاسوں کی پیاس بجھائی وہ سلسلہ بالواسطہ طورپر آج بھی جاری رہے۔ آج کے دور میں دعوت و تبلیغ اور اصلاح و تربیت کاکام کرنے کے لیے ان کی تعلیمات مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔مولانا اشرف علی تھانوی کی تصانیف اور رسائل کی تعدادتقریبًا 1400 تک ہے...مولانا اشرف علی تھانوی 83سال 3 ماہ11 دن کی زندگی گزارنے کے بعد 16رجب1362ھ بمطابق 20 جولائی، 1943ء کوعلالت کے بعد انتقال کر گئے،آپ کی نماز جناز ہ مولانا ظفر احمد عثمانی نے پڑھائی،آپ تھانہ بھون کے قبرستان میں آپ مدفون ہیں