خواجہ عابد نظامی مسلمانو! مجھ سے اپنا حق وصول کرلو
گیارہ ہجری۔ماہ صفر کے آخری ایام تھے۔ اللہ کے آخری رسولؐ کے سر درد شروع ہوا اور بخار بھی آنے لگا، لیکن اس حالت میں بھی آپؐ پانچوں وقت مسلمانوں کو نماز پڑھانے کے لیے مسجد میں تشریف لاتے تھے۔ ایک روز اسی شدید بیماری کی حالت میں اپنے ایک صحابیؓ سے ارشاد فرمایا:
’’فضل میرا ہاتھ پکڑلو۔‘‘حضرت فضلؓ نے آپؐ کے دست مبارک کو پکڑا تو آپؐ مسجد میں تشریف لائے۔ منبر پر تشریف فرماکر آپ نے ارشادفرمایا:
’’فضلؓ! لوگوں کو آواز دے کر جمع کرلو۔‘‘حضرت فضلؓ نے تعمیل ارشاد کی۔ جب صحابہ کرامؓ مسجد میں جمع ہوگئے تو آپؐ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا:
’’اے مسلمانو!
اللہ تعالیٰ بے اپنے ایک بندے کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ چاہے تو دنیا کی نعمتوں کو قبول کرلے‘ اور چاہے تو اللہ تعالیٰ کے پاس جاکر جو نعمتیں ملنے والی ہیں‘ ان کو قبول کر لے۔ اس بندے نے اللہ تعالیٰ کے پاس جاکر ملنے والی نعمتوں کو قبول کرلیا۔ دیکھو‘میرا نام لے کر کسی چیز کو حلال اور حرام نہ کہنا۔ میں نے وہی چیز حلال کی ہے‘ جو اللہ تعالیٰ نے حلال کی ہے اور وہی حرام کی ہے‘ جو اللہ تعالیٰ نے حرام کی ہے۔ میرے بعد مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا، لیکن انصار بہت کم رہ جائیں گے۔ اے مہاجرین! ان کے ساتھ نیک سلوک کرنا، کہ یہ لوگ ابتدا سے لے کر اب تک میرے مددگار رہے ہیں۔ میرے کنبے کی عزت کا بھی خیال رکھنا۔‘‘
رحمت عالمؐ زبان مبارک سے وصیت فرمارہے ہیں۔ شدت سے غم سے صحابہ کرامؓ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے، حضورؐ نے فرمایا:
میرا تم لوگوں کے پاس سے چلے جانے کا زمانہ قریب آگیا ہے، تو صحابہ کرامؓ کی چیخیں نکل گئیں۔ لوگوں کی سسکیوں کا شور کم ہوا،تو آپؐ نے ارشادفرمایا:
’’اے مسلمانو!
میں نے جس کی کمر پر کبھی ماراہو، تو آج میری کمر موجود ہے،وہ آئے اور اپنا بدلہ مجھ سے لے لے۔ جس کی آبرو پر میں نے حملہ کیا ہو ،وہ میری آبرو سے بدلہ لے لے، جس کا کو ئی مالی مطالبہ مجھ پرہو، وہ مال سے اپنا بدلہ لے لے۔تم میں سے کوئی یہ شبہ نہ کرے کہ مجھ سے بدلہ لینے سے میرے دل میں بغض پیدا ہوگا۔ ایسا شخص جان لے کہ بغض رکھنا نہ میری طبیعت میں شامل ہے،نہ میرے لیے مناسب ہے۔‘‘
خوب سمجھ لوکہ مجھے وہی شخص زیادہ پسند ہے، جو اپنا حق مجھ سے وصول کرلے یا معاف کردے، تاکہ میں اللہ تعالیٰ کے حضورخوش دلی کے ساتھ جاؤں۔
مرض الموت میں رحمت عالمؐ کا مسلمانوں کے سامنے یہ اعلان فرمانا کہ مجھ سے اپنا حق وصول کرلو۔ یہ گویا مسلمانوں کو تعلیم دینا اور آئندہ قیامت تک آنے والے مسلمان حکمرانوں میں ’’احتساب‘‘ کی بنیاد رکھنا تھا۔ تاکہ عام مسلمان یہ بات خوب اچھی طرح جان لیں کہ کوئی بڑے سے بڑا حکمران بھی آئندہ احتساب سے بالا نہیں۔ یہ اسی تعلیم کی بدولت تھا کہ بعد میں مسلمانوں کو جب ضرورت محسوس ہوئی،انہوں نے اپنے حکمرانوں کو برسرمنبر ٹوکا اور ان سے ان کے فعل کے بارے میں باز پرس کی۔ حتیٰ کہ کئی مسلمان حکمرانوں اور سپہ سالاروں کو اپنی صفائی کے لیے عدالت میں قاضی کے سامنے پیش ہونا پرا۔ لیکن جب سے عوام کے ان ذمہ دار نمائندوں نے مطلق العنان سمجھتے ہوئے خود کو احتساب سے بالا قرادیا،تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان معاشرے میں بگاڑ اور برائیوں کو فروغ حاصل ہوا اور عام لوگوں کے حقوق بری طرح پامال ہوئے۔ آج بھی شدید ضرورت ہے کہ عام لوگوں کایہ حق بحال ہو، اور عدالتوں کے پاس یہ اختیار ہوکہ وہ عوام کی شکایت پر کسی بھی حکمران کو طلب کرسکیں۔ حکمرانوں کو من مانی سے روکنے اور سیدھی راہ پر قائم رکھنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔
رحمت عالمؐ کے اس اعلان پر کہ مسلمانو! مجھ سے اپنا حق وصول کرلو،تاکہ میں اللہ تعالیٰ کے حضور خوش دلی کے ساتھ جاؤں۔ جب کافی دیر تک مجمعے سے کوئی آواز نہ آئی تو،رحمت عالمؐ نے اپنے اس اعلان کو پھر دہرایا۔ اس مرتبہ بھی جب مجمع سے مسلمانوں کے رونے کے علاوہ کوئی آواز سنائی نہ دی،توکچھ دیر انتظار فرماکر آپؐ منبر سے اتر آئے۔ظہر کا وقت ہوچکا تھا۔ نماز اداکرنے کے بعد رحمت عالمؐ پھر منبر پر تشریف لے گئے اور پھر وہی سابقہ اعلان دہرانے کے بعد فرمایا:
’’اے مسلمانو!
جس کے ذمے کوئی حق ہو،وہ بھی اداکرے اور دنیاکی رسوائی کا خیال نہ کرے کہ دنیا رسوائی آخرت کی رسوائی سے بہت کم ہے۔‘‘
یہ سن کر ایک صاحب کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یارسول اللہ! میرے تین درہم آپ کے ذمے ہیں۔ ایک روز میں آپؐ کی خدمت میں حاضر تھاکہ ایک سائل آیا،آپؐ نے مجھ سے فرمایا کہ اسے تین درہم دے دو۔
یہ سن کر رحمت عالمؐ نے حضرت فضلؓ سے فرمایا کی انہیں تہن درہم دے دو۔
پھر ایک صاحب کھڑے ہوئے اور عرض کیا:
‘‘یارسول اللہ! میرے ذمے بیت المال کے تین درہم ہیں،جومیں نے خیانت سے لے لیے تھے۔ اس لیے کہ میں اس وقت بہت محتاج تھا۔‘‘
رحمت عالمؐ نے حضرت فضلؓ سے فرمایا:ان سے تین درہم وصول کرلو۔
پھر ایک صاحب اٹھے جن کا نام عکاشہ تھا بولے: یا رسول اللہ میرا ایک حق آپؐ پر ہے۔ وہ یہ کہ ایک دفعہ آپ نے مجھے قمچی ماری تھی اور میرا بدن اس وقت ننگا تھا۔ اس واسطے آپ اپنا کرتہ اتارئیے تاکہ میں آپ کے بدن پر قمچی ماروں اور اپنا بدلہ لوں۔ عکاشہ کی بات سن کر رحمت عالمؐ نے فرمایا: میں اس حق کو ادا کرنے کے لیے حاضر ہوں۔
پھر فرمایا:قمچی منگوائی جائے۔
اس بات پر مسجد میں کہرام مچ گیا۔ تمام مسلمان رونے لگے۔ حضرت علیؓ نے بے قرار ہوکر عکاشہ سے کہا: رسول اللہؐ بیمار ہیں اور ان کا بڑھاپاہے۔ تجھ کو رحم نہیں آتا۔ آ،کر میرے بدن پر ایک نہیں، دس قمچیاں مارلے،ورنہ مسلمان تجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔
رسول اللہؐ نے حضرت علیؓ کو روکا اور فرمایا: اے علیؓ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایک کا بوجھ دوسرا نہیں اٹھا سکتا۔ اگر عکاشہ کے قمچی میں نے ماری تھی، تویہ بدلہ مجھ ہی کو ملنا چاہیے،اس بوجھ کو دوسرا نہیں اٹھا سکتا۔ یہ سن کر صحابہؓ اس قدر روئے کئی روتے روتے بے ہوش ہوگئے۔
رحمت عالمؐ نے عکاشہ سے فرمایا: میں نے کبھی کسی کے سامنے بدن برہنہ نہیں کیا۔ اس واسطے تو میرے حجرہ میں آ،تاکہ وہاں میں اپنا کرتہ اتاروں اور تو مجھے قمچی مارے۔ ایسانہ ہو،یہاں پر لوگ تجھ پر سختی کریں۔
عکاشہ نے اس تجویز کو قبول کرلیا، اور وہ رسول اللہؐ کے ساتھ ان کے حجرہ میں گیا۔ حجرہ میں جاکر رحمت عالمؐ نے اپنا کرتا اتارا تو عکاشہ نے قمچی پھینک دی اور بڑھ کر مہر نبوتؐ کو بوسہ دیا۔ پھر عرض کی: یارسول اللہؐ میں نے محض مہر نبوت کی زیارت اور اسے بوسہ دینے کے یہ حیلہ کیا تھا۔ ورنہ سچ یہ ہے کہ آپ نے کبھی مجھے قمچی نہیں ماری۔
رحمت عالمؐ نے ارشاد فرمایا:
عکاشہ! تجھ پر دوزخ کی آگ حرام ہوئی۔