نامی گرامی شاعر صحابی حضرت حسان بن ثابتؓ نے خود کو نعتیہ کلام کے لیے مختص کر کے ایسے دور کا آغاز کیا جو تا ابد سرور کائنات سے محبت وعقیدت کا ذریعہ بن گیا۔ دنیا بھر کے لاکھوں نعت خواں اس صنفِ سخن کو اپنا کر اپنی دنیا و آخرت سنوارتے ہیں۔واہ کینٹ المعروف "نعت نگر"اگرچہ ایک مضافاتی علاقہ ہے لیکن قدرت کی خاص عنایات کے ہمراہ اس کی فضائیں نذرانہ عقیدت نبوی کی گونج سے معطر رہتی ہیں۔ اس شہر بے مثال کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی پاکیزگی کا احساس روح میں سرائیت کر جاتا ہے پرخلوص ثنا خوانی نے مقامی نعت خوانوں کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بے حد و حساب کامیابیوں سے نوازا ہے انھی میں سر فہرست خوش الہان اور قد آور شخصیت نسل در نسل نعت خواں صاحب زادہ سید سلمان کونین بھی ہیں جو عالمی مبلغ و سیاح پیر سید یعقوب رحمانی ؒ کے پوتے اور پرائیڈ آف پرفارمنس نعت خواں سید منظور الکونین اقدس کے لخت جگر ہیں ۔سید سلمان کونین نے پاکستان سے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد برطانیہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ سیکیورٹی کمپنی میں نو برس خدمات سر انجام دیں۔ کرکٹ اور ٹینس بال کے بہترین کھلاڑی بھی رہے پاکستان میں فرسٹ کلاس کرکٹ کے بعد برطانیہ میں کاو¿نٹی کرکٹ بھی کھیلی ،بیرون ملک قیام کے دوران بھی اپنی رہائش گاہ پر سٹوڈیو بنایا اور نعت کی تیرہ برس ریاضت جاری رکھی دریں اثناوالد گرامی جب 2013 میں شدید علیل ہوئے تو اپنی تمام پیشہ ورانہ سرگرمیاں ختم کر کے رسول اللہ کی محبت اپنائے پاکستان کا رخ کیا اور پھر والد کی خدمت کے ساتھ ساتھ نعت خوانی میں باقاعدہ قدم رکھا
مذہبی گھرانےکےچشم و چراغ ہونے کے باعث انھیں سب سے پہلے مقام مصطفیٰ سے روشناس کرایا گیا دادا حضور زندگی کا نظم و ضبط بناتے،والد نعت خوانی کی تربیت دیتے،والد کے مشہور و معروف نعت گو شاعر دوست اپنا بہترین کلام پیش کرتے اور ڈاکٹر رو¿ف امیر جیسے نابغہ ءروزگار اپنے ہر دلعزیز شاگرد کی تصحیح اور حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے اسی باعث سید سلمان کونین نو مرتبہ آل پاکستان مقابلہ نعت خوانی میں کامیاب ٹھہرے سلمان کونین کی تراش خراش اور بیس سالہ محنت وریاضت نے انھیں بین الاقوامی سطح پر نعت خوانی اور طرزِ نعت تخلیق کرنے میں ناقابلِ شکست بنا دیا والد کے بعد ان کے مداحوں نے فرزند کو وراثتی پیمانے پر پرکھا اور لاہور میں رات بھر اٹھائیس نعتوں کی ایک طویل شب بیداری میں سرخروئی کا خراج دیا ایک پرکشش معاوضے کو نظر انداز کر کے خالی ہاتھ رہ جانے والے عقیدت مند نے اپنی جوانی میدان ثنا خوانی میں وقف کی توان کادامن عروج اور برکت سے بھر دیا گیا وہ بے شمار ممالک جرمنی،ناروے،بیلجیئم،بارسلونا،فرانس ، ڈنمارک ،ہالینڈ،جنوبی افریقہ، یونان ،کویت، قطر،متحدہ عرب امارات،بحرین اور سعودی عرب وغیرہ کا سفر کر چکے ہیں ،عالی مرتبت شخصیت منظور الکونین صاحب کے جگر گوشے کے اپنے نا قابلِ شمار شاگرد مقامی ،ملکی اور بین الاقوامی سطح پر موجود ہیں جن کی تربیت سخت کسوٹی اور آداب نعت رسول کے حساس پیمانے پر کی جاتی ہے
آداب نعت اور مقام مصطفیٰ کے مکمل ادراک سے متعلق سید سلمان کونین کے افکار و نظریات ایک سچے عاشقِ رسول ص کے ہیں ان کے مطابق آداب نعت کا بنیادی اصول یہی ہے کہ فلمی طرز یا گانے کی دھن پر طرز تخلیق نہ کی جائے جو شان رسول اقدس کی بے حرمتی ہے وہ کہتے ہیں کہ شاگردوں نے ان کی نصیحت مسلسل "نعت ذریعہءمعاش نہیں وجہ نجات ہے"کو سنا ،تشہیر کی لیکن ان کا حسن عمل دکھائی نہ دیا ،سید سلمان کونین نے ہر ذمہ داری مکمل خلوص سے نبھائی شاگردوں کی رہنمائی اور مسلسل معاونت سے انھیں کامیابی دلوائی لیکن اکثر نے اپنے استاد کے خلاف مہم جوئی کی جو بے ادبی بلکہ بدنصیبی ہے بیشتر افراد خود کو نعت خواں ظاہر کر کے معاشرے میں معتبر مقام حاصل کر لیتے ہیں لیکن پس پردہ گھناو¿نے جرائم میں ملوث ہیں جو عقیدت رسول ص کے منافی روش ہے ایسے عناصر سے ان کی پرزور استدعا ہے کہ گناہوں سے توبہ کریں یااس صنف سے کنارہ کشی اختیار کریں ۔ یہ رویہ بھی عام ہو چکا ہے کہ نعت خواں محافل کے انعقاد سے قبل معاوضہ مختص کر کے معاملات طے کر لیتے ہیں جو نہایت غیر اخلاقی حرکت ہے لفافہ کلچر اسلاف کے درس اخلاقیات پر کاری ضرب ہے نووارد نعت خوانوں کی ان آداب کے ساتھ مکمل حوصلہ افزائی اور فراغ دلی سے داد و تحسین سینئرز کی ذمہ داری ہے بقول حفیظ تائب
خلق عظیم و اسوہ کامل حضور کا
آداب زیست سارے جہاں کو سکھا گیا
سید سلمان کونین کے مطابق حکومتی سطح پر نعت خوانی کے لیے حالات مخدوش ہیں عجیب تضاد ہے کہ کھیلوں کے لیے اکیڈمیز ہیں لیکن جس ہستی کے پائے مبارک امت کیلئے بخشش کی دعاو¿ں میں سوجھ جایا کرتے تھے ان کے نام لیواو¿ں کے لیے باقاعدہ تربیت گاہیں مفقود ہیں قبل ازیں الیکٹرانک میڈیا کی نشریات اور پروگراموں نیز سماجی تقریبات کا آغاز حمد و ثنا سے کیا جاتا تھا لیکن نجانے کس ثقافت کی تقلید میں یہ اطوار فراموش کر دئیے گئے اگر اہل پاکستان حمدو ثنا کو بطور توشہ آخرت بنا لیں تو ملک میں امن و سلامتی اور معیشت میں برکت ہو گی وہ اپنی مثال دیتے ہوئے جناب حنیف نازش قادری کا ایک شعر گوش گزار کرتے ہیں کہ
ہم کہاں عزت کے لائق تھے مگر بستی کے لوگ
نعت کے صدقے ہماری آبرو کرتے رہے
سید سلمان کونین نوجوان نسل کے لیے دین و دنیا میں محنت و مشقت اور محبت و عقیدت رسول ص کی روشن مثال ہیں۔