تاریخ کی لوح۔(آخری قسط)

پاک فوج نے نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی نگہبانی کرنی ہے۔ آرمی چیف جو بھی ہے جب تک ہے، اس کے حکم سے سپاہی کا سرِ مو انحراف ڈسپلن کا بیڑا غرق کر دیتا ہے۔ حیدر مہدی اور عادل راجہ وطن سے باہر بیٹھ کر کیا درس دے رہے ہیں!۔ فوجیوں کے دماغ میں بغاوت کا بیج بو کر کس کی خدمت، کس کا نقصان کر رہے ہیں؟۔سزا سنا دی گئی۔ اگر کہیں شائبہ ہے کہ ضابطے نظر انداز ہوئے ہیں تو فورم موجود، اپیل کا حق ہے۔ سرِ دست ان عوامل سے دور ہو جائیں جو سزا کا موجب بنے ہیں۔
تحریک انصاف پر آج کڑا وقت ہے۔ نو مئی نائٹ میئر بن چکا ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت کو شکوہ ہے کہ اسکے خلاف انتقامی کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ عدالتوں سے انصاف نہیں مل رہا۔ میاں نواز شریف کو بھی کبھی ایسا ہی شکوہ و شکایت بلکہ شدید اعتراض ہوا کرتا تھا۔آج فضائیں اور ہوائیں انکے حق میں چل رہی ہیں۔ ایون فیلڈ میں ان کی سزا ختم ہوچکی ہے۔تحریک انصاف کے سربراہ سمیت اعلیٰ لیڈر شپ جیل میں یا رو پوش ہے۔ کئی لیڈر ضمانتیں بھی کرا چکے۔ کچھ کو ضمانت ہونے پر دوسرے کیس میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ عدالتوں میں برہمی نظر آتی ہے، نرمی بھی دِکھتی ہیں۔ تاریخ کی لوح پر دونوں طرح کے نام درج ہو رہے۔
خاور مانیکا نے عمران خان اور اپنی مطلقہ بشریٰ بی بی پر سنگین الزام لگائے ہیں۔ کیس کردیا گواہیاں ہورہی ہیں۔ یہ ایسے الزامات ہیں جن کی شرعی سزا کے تذکرے پر لرزا طاری ہو جاتا ہے۔ یہ اگر جھوٹے ثابت ہوتے ہیں تو الزام علیہ پر قذف جاری ہوسکتی ہے۔مانیکا صاحب آج جس زبان سے الزامات لگا رہے ہیں۔ اسی سے ایک ویڈیو بیان میں بشریٰ بی بی کو پاک دامن اور عمران خان کو بھلا آدمی قرار دے چکے تھے۔ انہوں نے کب سچ بولا؟ اب یا تب؟ یہ منصفوں نے طے کرنا ہے۔ تاریخ کی لوح فیصلے کے مطابق ان کے ناموں کے اندراج کی منتظرِامروز و فردا ہے۔خاور مانیکا اپنے حق میں اور عمران خان کے خلاف تین گواہ بھی پیش کئے ،ان کے بیانات قلم بندہوچکے ہیں۔عون چودھری عمران خان کے کبھی اعتماد کے فرد ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی گواہی میں کہا ہے کہ عمران خان نے بشریٰ بی بی سے عدت کے دوران پہلا نکاح جان بوجھ کر کیا۔دوتین روز قبل عمران خان نے جیل میں سائفر کیس کی سماعت کے دوران صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ حلف دینے کو تیارہیں کہ بشریٰ بی بی کو نکاح کے روز دیکھا تھا۔اس پر عون چودھری نے اسے صدی کا سب سے بڑا جھوٹ قراردیتے ہوئے کہا کہ وہ انہیں کئی بار بشریٰ بی بی کو ملوانے انکے گھر لے کر گئے تھے۔مانیکا کے ملازم لطیف نے گواہی دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان بشریٰ سے آکر گھنٹوں باتیں کیا کرتے،میں کمرے میں جاتا تو مجھے دونوں بْرا بھلا کہتے۔مفتی سعید عمران خان کے تین نکاح پڑھا چکے ہیں۔ایک ریحام خان سے ،دو بشریٰ بی بی سے۔ ایک ان کے بقول عدت سے پہلے دوسرا عدت پوری ہونے پر۔جمائما سے خان کا نکاح پیرس کی گنبد والی مسجد میں ہوا تھا۔پاکستان میں ہوتا تو یہ سعادت بھی مفتی صاحب کے حصے میں آسکتی تھی۔مفتی سعید نے عدت پوری ہونے سے قبل نکاح کو غیر شرعی اور غیر قانونی قرار دیا۔جب یہ معاملہ شروع میں اْٹھا تو مفتی صاحب نے فتویٰ دیا تھا کہ عدت کا تعین خاتون خود بھی کرسکتی ہے۔مفتی صاحب تب درست فرما رہے تھے یا اب؟ مفتی صاحب بغاوت کیس میں ملوث رہے ہیں۔ ان سے زیادہ موت کی دھمک کس نے سنی ہوگی؟۔ 1995ء میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کے دوران خلافت آپریشن کے نام سے انقلابی منصوبہ تیار کیا گیا۔ ایسے انقلابی منصوبے ناکام ہو جائیں تو بغاوت کہلاتے ہیں۔ اس بغاوت کی سربراہی میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی کر رہے تھے۔ انکے بعد دوسرے سینئر افسر بریگیڈیئر مستنصر باللہ تھے۔پلاننگ یہ تھی کہ کور کمانڈرز کو اجلاس کے دوران گرفتار کر لیا جائے۔ اس مقدمہ کے اہم گواہ مولوی مفتی محمد سعید نے یہ گواہی دی کہ سازش کے بانیوں نے فیصلہ کیا تھا کہ کور کمانڈرز کانفرنس پر حملہ کرنے کیلئے فوجیوں کو نہیں بلکہ مجاہدین کو استعمال کیا جائیگا۔ ظہیر الاسلام عباسی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جو تقریر کرنی تھی وہ مولوی عبد القادر ڈیروی نے لکھی۔معروف جہادی کمانڈر قاری سیف اللہ اختر بھی باغیوں اور گرفتار ہونیوالوں میں شامل تھے۔
یہ سازش صرف پاکستان میں ہی تیار نہیں ہوئی بلکہ اس میں شامل کردار اس مقصد کیلئے سعودی عرب میں بھی ملاقاتیں کرتے رہے۔ سلطانی گواہ کرنل لیاقت علی راجہ نے یہ گواہی دی کہ اس گروہ کے لوگوں نے انہیں صوفی اقبال کا مرید بنایا۔ صوفی صاحب کا زیادہ تر قیام سعودی عرب میں رہتا تھا۔اس منصوبہ میں قاری سیف اللہ اختر کے توسط سے لائے گئے جو ہتھیار استعمال ہونے تھے وہ 8 ستمبر 1995ء کو پولیس نے پکڑلئے۔فوجی حکام کو یہ یقین دلایا گیا کہ یہ ہتھیار تو کوٹلی میں کشمیر کے مجاہدین کو بھجوائے جا رہے تھے۔ 18 ستمبر کو امریکی ایجنسیوں نے اطلاع دی کہ فوجی قیادت کو ختم کرنے اور حکومت کا تختہ الٹنے کی تیاری کی جا رہی تھی۔ اس اطلاع پر گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا۔حکام بالا بغاوت میں ملوث ہر کردار کو اْڑا کر رکھ دینا چاہتے تھے۔ ایک لمحے کیلئے تصور کریں چیف سمیت سارے کور کمانڈرز کو گرفتار کر لیا جاتا۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت اور وہ خود بھی بغاوت کی چکی میں پس جاتیں تو پاکستان میں کیا ہوتا؟ دنیا میں کیا پیغام جاتا۔ خوش قسمتی ان لوگوں کی کہ جنرل وحید کاکڑ کی مدت ملامت پوری ہوگئی تو یہ لوگ بڑی سزاؤں سے بچ گئے۔ جن میں مفتی سعید بھی شامل تھے۔ ان کاکیا بھی تاریخ کی لوح پر لکھا جانا ہے۔
تاریخ کی لوح کاہر فرد رائٹر ہے۔ خود لوح پر لکھتا ہے۔ جو لکھ دیا بعد از موت پتھر پر لکیر مگر آخری سانس تک اسکے پاس مٹا کر لکھنے کا چانس رہتا ہے۔ ڈاکٹر اے کیو خان تاریخ کی لوح پر جو لکھ گئے اسے پڑھیں، انکے ایک ساتھی ڈاکٹر محمد فاروق ہیں، انہیں خان سے پہلے اٹھایا گیا اور رواں سال نظر بندی ختم ہوئی۔ وہ بتا رہے تھے کہ ڈاکٹرخان کے پاس جسٹس نسیم حسن شاہ آئے۔ پریشان تھے وجہ بتائی کہ راتوں کو نیند نہیں آتی۔ بڑا بوجھ لیے پھرتا ہوں۔بھٹو کو پھانسی کا فیصلہ دباؤ پر کیا تھا۔ بے نظیر بھٹو سے معافی مانگنا چاہتا ہوں۔ ڈاکٹر فاروق بتاتے ہیں کہ خان صاحب نے وزیر اعظم بے نظیر بھٹوسے بات کی۔اگلے روز وہ آگئیں۔ نسیم حسن شاہ نے معافی مانگ لی تفصیلی واقعہ پھر کبھی سہی! نسیم حسن شاہ تاریخ کی لوح میں یہ معافی بھی رقم کر گئے۔ اب قاضی فائز عیسیٰ نے بھٹو ریفرنس پھر کھول دیا ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ نے لوح تاریخ میں اپنے عہد کا سب سے بڑا اقدام رقم کیا ہے۔ ہر کسی کیلئے آخری سانس تک لوح تاریخ رقم کرنے کی گنجائش ہے۔(ختم شد)

فضل حسین اعوان....شفق

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...