پاکستان کرکٹ بورڈ نے یہ اعلان تو کر دیا کہ کتنے ممالک کے کتنے سو کھلاڑیوں نے پی ایس ایل کے لیے رجسٹریشن کروا لی ہے لیکن کرکٹ کے حلقوں میں یہ بحث زور و شور سے جاری ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ انتظامیہ دنیائے کرکٹ کے نمایاں کھلاڑیوں کو قائل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ وہ بڑے نام جو دنیا کی دیگر ٹونٹی ٹونٹی لیگز میں شریک ہوتے ہیں اور شائقین کرکٹ ان کے کھیل سے لطف اندوز ہوتے ہیں وہ پی ایس ایل میں کیوں نظر نہیں آئیں گے۔ بتایا یہ جاتا ہے کہ پی سی بی میں ان دنوں ہنگامی حالات ہیں، کسی کو کچھ علم نہیں کہ کیا کرنا ہے، کیا ہو رہا ہے، کل کیا ہو گا اور کون کرے گا۔ کرکٹ بورڈ کی مینجمنٹ کمیٹی کے چیئرمین ذکا اشرف کے پاس جو جاتا ہے وہ اسے کہتے ہیں بتائیں ہم آپ کے لیے کیا کر سکتے ہیں یا وہ یہ کہتے ہیں کہ آپ ہماری ٹیم کا حصہ ہیں ہم آپکو ساتھ لے کر چلیں گے لیکن جہاں تک پائیدار فیصلوں کا تعلق ہے وہ کوئی نہیں کر رہا صرف رنگ و روغن پر توجہ ہے۔ ایسے کام ہو رہے ہیں جن سے کھیل کا تو کوئی فائدہ ہونا مشکل نظر آتا ہے لیکن شخصیات فائدہ ضرور اٹھا رہی ہیں۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ بورڈ افسران کے پاس کھیل کی بہتری کے حوالے سے بات کرنے کے لیے وقت نہیں ہے، سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہیں۔ چونکہ سب جانتے ہیں کہ مینجمنٹ کمیٹی کے چیئرمین عارضی ہیں اس لیے انہیں خوش کرنے کے لیے جو ہو سکتا ہے وہ کر دیا جاتا ہے، تصاویر بنوانی ہوں، کوئی دورہ ہو یا پھر نمائشی معاہدے ایسے کام ہو رہے ہیں لیکن نہ تو پاکستان سپر لیگ پر کوئی توجہ دے رہا ہے اور نہ ہی کھیل کے حوالے سے دیگر اہم معاملات پر توجہ دی جا رہی ہے۔ ان حالات میں پاکستان سپر لیگ بھی بری طرح متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کرکٹ کے حلقوں میں نمایاں ناموں کی کمی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ تو ابھی تک پی ایس ایل میچز کے اپنے میدانوں یا متحدہ عرب امارات میں انعقاد کے حوالے سے فرنچائز میں اتفاق رائے پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ یہ باتیں اب بھی ہو رہی ہیں کہ عام انتخابات میں تاخیر ہو سکتی ہے یا وقت پر ہونے کی صورت میں پاکستان کے مقبول ترین ٹورنامنٹ کا کیا بنے گا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے بادشاہ سلامت مسکراتے ہوئے دفتر آتے ہیں، دو چار ملاقاتیں کرتے ہی، تصاویر بنواتے ہیں، پوچھتے ہیں کہ کون ان کی تعریف کر رہا ہے، کون ان پر تنقید کر رہا ہے، کسی کی شکایت کرنا ہو وہ کرتے ہیں، جوڑ توڑ کرتے ہیں ملاقاتیں کرتے اور پھر گھر چلے جاتے ہیں۔ ان حالات میں کھیل کا کس نے اور کیوں سوچنا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کب تک چلے گا۔ پی ایس ایل جیسے کامیاب ایونٹ کو بھی اگر اندرونی اختلافات اور سیاست کی بھینٹ چڑھایا گیا تو نقصان کا ازالہ کون کرے گا۔ یہ پاکستان کے کروڑوں شائقین کا منصوبہ ہے کیوں اسے سیاسی پسند نا پسند کہ بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔
گذشتہ کئی روز سے پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سلمان بٹ خبروں میں ہیں۔ پی سی بی نے انہیں چیف سلیکٹر وہاب ریاض کا کنسلٹنٹ مقرر کیا لیکن پھر دباؤ آنے پر سلمان بٹ کے دیرینہ دوست چیف سلیکٹر وہاب ریاض نے سلمان بٹ سے کام لیے بغیر عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ وہاب ریاض کے اس فیصلے پر خاصی تنقید ہوئی ہے حتی کہ سابق کپتان وسیم اکرم نے بھی کہا ہے کہ فیصلہ کرنے سے پہلے سوچیں اور جب فیصلہ کر لیں تو پھر اس پر قائم رہیں۔ ہر آدھ گھنٹے بعد پریس کانفرنس نہ کریں۔ عوامی سطح پر سلمان بٹ کو عہدے سے ہٹانے شدید ردعمل آیا ہے بلکہ کئی سینئر صحافی بھی اس معاملے میں سلمان بٹ کی حمایت کر رہے ہیں۔ جونیئر سلیکشن کمیٹی کے سابق سربراہ ٹیسٹ کرکٹر باسط علی کہتے ہیں کہ "سلمان بٹ کو عہدے سے ہٹانے کا بہت دکھ ہوا ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس فیصلے سے سلمان بٹ کا نہیں پاکستان کرکٹ کا نقصان ہوا ہے۔ سلمان بٹ سے جو غلطی ہوئی اس کی سزا وہ بھگت چکا ہے۔ وہ کھیل کی بہت سمجھ بوجھ رکھتا ہے۔ اسے کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ جب کسی کو روک ٹوک نہیں ہے تو پھر سلمان بٹ کو نشانہ بنانے کی کیا وجہ ہے۔ یہ بہت زیادتی ہے کہ اسے کھیل سے دور رکھا جا رہا ہے۔ اس سارے معاملے میں محمد حفیظ کا کردار بہت منفی ہے۔" سابق کپتان سلمان بٹ کہتے ہیں کہ "وہ پی سی بی اور وہاب ریاض کے مشکور ہیں کہ ان کی طرف سے کوشش ہوئی، میں کام نہیں کر سکا اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ کبھی نہیں کر پاوں گا، وہ وقت ضرور آئے گا۔ جن لوگوں نے مخالفت کی ان کی اپنی رائے ہے، حمایت کرنے اور حوصلہ افزائی کرنے والوں کا مشکور ہوں۔ مجھے دنیا بھر سے پیغامات ملے ہیں، شائقین کرکٹ نے سوشل میڈیا کے ذریعے محبت کا اظہار کیا ہے۔ اس معاملے میں کہیں نہ کہیں ارادتا مخالفت ہوئی ہے کوئی بات نہیں اللہ کو جب منظور ہوا کھیل کے میدان میں جو کر سکتا ہوں وہ کروں گا۔ افغانستان کے ساتھ بات چیت چل رہی تھی لیکن میں نے پاکستان کے لیے کام کرنے کو ترجیح دی۔ نہ تو میں دلبرداشتہ ہوں، نہ رنجیدہ ہوں، مشکلات تو آتی ہیں۔ یہ وقت بھی گذر گیا ہے۔ نظریں مستقبل پر ہیں۔"
پاکستان کرکٹ ٹیم آسٹریلیا میں موجود ہے اور پریکٹس میچ کھیلنے میں مصروف ہے۔ پاکستان کے نئے ٹیسٹ کپتان شان مسعود نے پریکٹس میچ میں ڈبل سنچری سکور کر دی ہے۔ جواب میں آسٹریلیا نے بھی بھرپور جواب دیا ہے۔ شان مسعود کا بحیثیت کپتان یہ پہلا امتحان ہے۔ ان کے لیے سب سے زیادہ اہمیت ذاتی کارکردگی کی ہے کیونکہ جب تک ان کے بیٹ سے رنز نہیں نکلیں گے اس وقت تک ان کے لیے ڈریسنگ روم میں بحیثیت کپتان اہمیت منوانا مشکل ہو گا۔ اس پریکٹس میچ سے یہ اچھا ضرور ہوا کہ شان مسعود نے رنز کیے ممکن ہے ان کے اعتماد میں اضافہ ہو اور وہ پہلے ٹیسٹ میچ میں اس کارکردگی کو دہرا سکیں۔ ان کے کھیل میں وقت کے ساتھ ساتھ نکھار آیا ہے یہ دورہ خاصا مشکل ہے اور پاکستان کی باولنگ بہت کمزور ہے۔ شان کے لیے کم وسائل کے ساتھ اس سیریز میں بہتر پرفارم کرنا، کھلاڑیوں سے ان کی صلاحیتوں کے مطابق کام لینا، ڈریسنگ روم کے ماحول کو بہتر رکھنا اور کرکٹرز میں بہترین کارکردگی کے جذبے کو بیدار رکھنا بہت اہم ہے۔ وہ کھیل کی اچھی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں، ایک وقت میں انہیں نائب کپتان بنایا گیا لیکن انہیں پلینگ الیون میں شامل کرنا بھی مناسب نہ سمجھا گیا ایسے واقعات کے بعد ٹیسٹ ٹیم کا کپتان بننا اور پھر انہی کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنا بہت مختلف تجربہ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ شان مسعود کو ساتھی کھلاڑیوں کی طرف سے کتنی مدد ملتی ہے۔ آگے بڑھنے کے لیے ماضی کے ناخوشگوار واقعات کو صرف ایک سبق اور مثال کی حیثیت میں یاد رکھنا چاہیے۔ شان مسعود اور ان کے ساتھی کھلاڑیوں کے لیے سب سے پہلے پاکستان ہونا چاہیے۔