بابری مسجد کاانہدام، غیرت ِ مسلم کا امتحان

Dec 09, 2023

ڈاکٹر حافظ مسعود اظہر


ڈاکٹر حافظ مسعود اظہر 
6دسمبر1992ءتاریخ کاوہ دلخراش اور افسوسناک دن ہے جب مسلمانوں کی عظمت کی ایک نشانی،مغل بادشاہ وسپہ سالار ظہیرالدین بابرکے عہد (1528ئ) کی بنائی گئی 500 سالہ تاریخی بابری مسجد کوانتہاپسنداور جنونی ہند¶وں نے شہیدکردیا۔ ان انتہاپسندہند¶وں کادعویٰ تھا کہ بابری مسجد ان کے دیوتا رام (1500 ق م)کی جائے پیدائش ہے۔ یہاں گیارہویں صدی عیسوی میں مندرتعمیر کیاگیاتھا بعدمیں اسے گراکربابری مسجد بنائی گئی۔ ہند¶وں نے بابری مسجد کواپنے دیوتا رام کی جنم بھومی قراردینے کادعویٰ سب سے پہلے 1855ءمیں انگریزوں کے دورمیں کیا، گویاہند¶وں کوبابری مسجد بننے کے تقریباً350سال بعد اور رام کی پیدائش کے تین ہزار تین سو پچپن سال بعدپتا چلا کہ یہ تو رام کی جائے پیدائش ہے۔اسی سے اندازہ ہو جاتاہے کہ ان کی تاریخی اور علمی تحقیق کی کیاحیثیت ہے۔ حالانکہ اگربابری مسجد واقعی ان کے خداکی جائے پیدائش ہوتی تویہ بہت مشہور اور یادگار جگہ ہوتی۔جیسا کہ تاریخ میں سومنات اوردیگر مندروں کاذکر توملتاہے لیکن مسلمانوں کے ہاتھوں رام کی جائے پیدائش والے مندر کے توڑنے اوراسے مسجد بنانے کاکہیں حوالہ نہیں ملتا۔ اگر مسلمانوں کے ہاتھوں سومنات اوریگرمندروں کے توڑنے کاذکر کتابوں میں جابجا موجود اور یقینا موجود ہے توپھررام کی جائے پیدائش والے مندر کے توڑنے کی شہرت توسب سے زیادہ ہونی چاہیے تھی اور تاریخ کی کتب میں جابجا اس کا ذکر بھی ہونا چاہیے تھا ۔ 
یہ طرفہ تماشا نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک قوم کے دیوتا کی جائے پیدائش پربناہوامندر ہو اوراس کی شہرت کاذکرتاریخ میں نہ ہونے کے برابر ملے،اتنی بات ہی ہند¶وں کے دعوے کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ بابری مسجد کی شہادت کو آج 31برس مکمل ہوچکے ہیں۔ یہ مسجد جو کعبہ کی بیٹی تھی، کبھی ایستادہ تھی، عالی شان تھی، اس کی مضبوط بنیادیں تھیں، موٹی دیواریں تھیں، گنبد تھے لیکن آج اس کانام ونشان بھی مٹ چکا ہے۔ بابری مسجد کو شہید لکھتے ہوئے قلم کانپتا ہے، دل لرزتا ہے، آنکھیں بھیگ جاتی ہیں یہ سوچ کر کہ جب گاﺅ ماتا اور بتوں کے پجاری اس کے گنبدوں پر چڑھے، ان پر کدالیں چلانا شروع کیں تو مسجد چیختی رہی، کعبے کی بیٹی چلاتی رہی کہ محمود غزنوی کے فرزند کدھر ہیں ؟ ظہیر الدین بابر کے گھوڑوں کے ٹاپوں کی آوازیں کیوں خاموش ہیں ؟ ہندو مجھ پر ہتھوڑے برساتا رہا، بزدل بنیا مجھ پر لاٹھیاں مارتا رہا، میرے ان گنبدوں پر چڑھ گیا جن میں کبھی قرآن مجید کی تلاوت اور احادیث کی آوازیں گونجا کرتی تھیں۔ بابری مسجد چلاتی رہی کہ کوئی ہے جو میری مدد کو پہنچے، کون ہے جو مجھے گاﺅ ماتا کے پجاریوں سے بچائے۔ صد حیف مجھے بچانے کے لیے کوئی بھی نہ پہنچا۔ جس دن بابری مسجد کو شہید کیا گیا اس دن اترپردیش میں کرفیو لگا دیا گیا۔ اس کے باوجود بھارت کے مسلمان اپنی طاقت، وسائل اور استعداد کے مطابق جو احتجاج کرسکتے تھے کیا۔ لیکن 57اسلامی ممالک کے سربراہ خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہے ۔آخر مٹی اور پتھر سے بنے دیوی اور دیوتاﺅں کے پجاری مسجد کے سینے پر چڑھ گئے۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں ’ ہندو توا‘ کا عفریت برہنہ ناچ رہا ہے۔ بھارت کی اکثریتی ہندو آبادی کی رگ رگ میں مسلم دشمنی سرایت کرچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے 25 کروڑ مسلمان بھی بے بس ہوگئے۔جو احتجاج کے لیے نکلے ان پر ہندو بلوائی ٹوٹ پڑے بابری مسجد کی شہادت کے خلاف احتجاج کرنے والے سینکڑوں مسلمان شہید کردیے گئے۔ جنونی ہندو 75 برس سے مسلسل مسلمانوں کو ذلیل کر رہے اور ان پر حملے کررہے ہیں مگر بھارتی مسلمان اس حد تک کمزور اور بے بس ہوچکے ہیں کہ وہ کسی حملے کا جواب دینے کی ہمت بھی نہیں کرسکتے۔ بیچارے بھارتی مسلمانوں سے کیا شکوہ یہاں تو آزاد پاکستان کے مسلمان حکمران بھی اپنے کلمہ گو بھارتی مسلمانوں کے حق میں آواز نہیں اٹھاتے ہیں۔ ان حالات میں بابری مسجد کہتی ہے کہ میں اپنی شہادت کی شکایت کروں تو کس سے کروں ؟ کیا مجال ہے جو تم نے جواب دینے کا سوچا ہو اور میرے لیے آواز اٹھائی ہو ۔ بابری مسجد کہتی ہے اے پاکستان کے مسلمانوں ! ذرا تم بھی تو بتلاو¿ تم کیوں چپ سادھے بیٹھے رہے؟ کیا تم نہیں جانتے کہ میں 1828 ءمیں اس وقت بنی تھی جب بابر نے ایودھیا کو فتح یاب کیا تھا تب بابر نے مجھے فتح کی یاد میں بنایا تھا۔ اس کا مطلب ہے میں اس وقت کی یادگار ہوں جب ہندوستان کے مسلمان مرد ِ میدان تھے مجاہدتھے اور موحد تھے۔ بابری مسجد کے گرائے جانے کا یہ مطلب ہے کہ آج کے مسلمان مرد ِ میدان نہیں رہے اور ان میں سے جہادی روح ختم ہو گئی ہے۔ میں تو 1949 ءسے انتظار کر رہی ہوں اس وقت سے میرے در و دیوار نمازیوں کے رکوع وسجود اور قرآن کی تلاوت کو ترس گئے ہیں، اب تو مجھے شہید ہوئے بھی 31برس ہونے کو آئے ہیں۔ تین عشرے گزرنے کے بعد بھی جب کوئی مسلمان میری مدد کو نہ آیا تو بتوں کے پجاریوں نے جان لیا کہ اب یہ قوم غزنوی اور بابر کی قوم نہیں یہ تو لتا کے گانے سننے والی قوم ہے۔ یہ ہماری معاشرتی رسموں مہندی ، تلک اور بسنت کی رسیا قوم ہے۔ یہ قراردادیں پیش کرنے، اقوام متحدہ میں جانے، جلوس نکالنے، ٹائر جلانے اور نعرے لگانے والی قوم ہے۔ بھلا ایسی قوم سے خائف ہونے کی کیا ضرورت ہے ؟
ان حالات میں مسلمانوں کے پاس آخری چارہ کار کے طور پر عدلیہ کا دروازہ تھا چنانچہ مسلمانوں نے بھارتی سپریم کورٹ سے رجوع کیا ۔ دلائل ، شواہد ، حقائق مسلمانوں کے حق میں تھے ۔ تاریخی کاغذات اور دستاویزات یہ چیخ چیخ کر کہہ رہی تھیں مذکورہ جگہ کبھی مندر نہیں رہا بلکہ ابتدا ہی سے یہاں مسجد ہی تھی۔ اس لیے مسلمانوں کو یقین تھا کہ عدلیہ ان کے حق میں فیصلہ کرے گی لیکن مسلمان بھول گئے تھے کہ بھارتی عدلیہ انصاف کی بالادستی نہیں بلکہ ہندوتوا کی بالادستی چاہتی تھی۔ اسی لیے بھارتی سپریم کورٹ نے ٹھوس حقائق ہونے کے باوجود مسلمانوں کے خلاف فیصلہ دیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے مودی حکومت کے حوصلے مزید بڑھ گئے اس کے بعد مندر کی تعمیر کے مذموم پروگرام پر عمل درآمد شروع کردیا گیا ۔ 
 جس جگہ کسی وقت میں مسجد تھی وہاں 70 ایکڑ کا رقبہ کمپلیکس کے لیے مختص کردیا گیا اور اس کمپلیکس کے اندر 2.67 ایکڑ کی جگہ پر نریندر مودی نے عین اس دن مندر کا سنگ بنیاد رکھا جس دن مقبوضہ جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی گئی تھی۔ اس طرح سے مودی حکومت نے یہ پیغام دیا کہ بھارت ہو یا مقبوضہ جموں کشمیر ہر دو جگہ مسلمان ہی اس کا ٹارگٹ ہیں۔ اس کے بعد تیزی سے مندر کی تعمیر کاکام شروع کردیا گیا۔ سو 15ارب روپے کی خطیر رقم کی لاگت سے مندر کی پہلی منزل مکمل ہوچکی ہے جسے جنوری 2024ءمیں پوجا پاٹ کے لیے کھول دیا جائے گا جبکہ مندر کی تعمیر کا دوسرا اور آخری مرحلہ دسمبر 2025ءمیں مکمل ہو گا ۔ بابری مسجد کی شہادت اور مندر کی تعمیر بی جے پی کے انتخابی ایجنڈے اور وعدے میں شامل تھی۔ بی جے پی نے جووعدہ کیا پورا کیا جو چاہا حاصل کرلیا اپنے ایجنڈے کو عملی جامہ پہنا لیا۔ ان حالات میں سوال یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران کیا کررہے ہیں ، وہ پاکستان جو کلمہ طیبہ کے نام پر حاصل کیا گیا تھا جس کے قیام میں لاکھوں مسلمانوں کا خون شامل ہے ، جس کے بانیان نے بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں اور مساجد کی حفاظت کے وعدے کیے تھے۔ بابری مسجد اور دیگر شہید کی جانے والی مساجد کے منبر ومحراب اور مینار ہم سے سوال کرتے ہیں کہ اے پاکستان کے مسلمانوں، حکمرانوں تم نے ہماری مدد اور حفاظت کے جو وعدے کیے تھے، وہ وعدے کب پورے کرو گے ؟

مزیدخبریں