حکیمانہ …حکیم سید محمد محمود احمد سہارن پوری
hakimsaharanpuri@gmail.com
بس کہ نسبت ہے محمدﷺسے غلامانہ مجھے
میری درویشی بھی رشک شوکت شاہانہ ہے
29 برس قبل حکمت ' عشق'ادب ' وطن دوستی اور انسان نوازی کا ایسا چراغ سپرد لحد ہوا جس کی روشنی سے ربع صدی تک انسانیت فیض پاتی رہی۔ اللہ کریم تحریک پاکستان کے راہنما اور مدینہ منورہ کے عشق میں سراپا غرق حکیم عنائیت اللہ نسیم سوہدروی کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے ارو انہیں فردوس بریں کا وہ حصہ عطا کرے جو اللہ اور اس کے رسول محتشم? کے محبان کے لیے مختص ہے!!حکیم عنایت اللہ سوھدوری کی پوری زندگی فروغ حکمت اور خدمت انسانیت میں گزری تحریک پاکستان کے اس عظیم راہنما نے مولانا ظفر علی خان اور مولانا شوتک علی کی طرح خود کو تحریک پاکستان اور نئے اور آزاد وطن کے لیے وقف کر دیا تھا حکیم عنائیت اللہ نسیم سوہدروی اور میرے والد مرحوم حکیم سروسہانپوری پوری کی زندگی کے بہت سے امور مشترک تھے دونوں صاحبان دین اور خدمت انسانیہ کے ترجمان بنے رہے وہ اٹھتے بیٹھتے فروغ دین کا فریضہ ادا کرتے انہیں نوجوانوں خصوصاً نونہالوں سے بہت محبت تھی دونوں کی نوجوانوں سے بہت امیدیں وابستہ تھیں وہ سمجھتے تھے کہ نوجوان نسل تعلیم یافتہ ہو کر ہم سے بہتر پاکستان اور قوم کی خدمت کرے گی وہ اپنی گفتگو اور ملاقاتوں میں نوجوانوں کی نصحیتیں کرتے ان میں وطن دوست کی شمع روشن رکھتے والد محترم حکیم سروسہانپوری اور چچا مرحوم سید سعود ساحر کے حکیم عنایت اللہ نسیم سو ھدوری سے پرانی شنائی اور نیاز مندی تھی والد صاحب 1937ءے ضمنی الیکشن میں ان کی مولانا ظفر علی خان اور مولانا شوکت علی کے ساتھ جدوجہد کو بطور حوالہ پیش کرتے تحفظ ختم نبوت میں ان کا روشن کردار آج بھی ہمارے لئے مثال کی صورت میں موجود ہے طب مشرق' پاکستان اور اسلام کے لیے مرحوم حکیم نسیم صاحب کی خدمات ہمیشہ ناقابل فراموش رہیںگی۔ہمیں یہ بھی امید ہے کہ حکیم مرحوم کے فرزند حکیم راحت نسیم اور ہم مل کر اپنے اپنے اجداد کا مشن پوری دل جمعی کے ساتھ جاری رکھیں گے۔
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ حکیم عنائیت اللہ نسیم سوہدروی دوران تعلیم ہی سیاست میں آ گئے تھے۔ علی گڑھ میں جب آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا قیام عمل میں آیا تو تاسیسی اجلاس میں شریک ہوئے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے جو طلباء آل انڈیا مسلم لیگ کے سیشن 1937 لکھنو سیشن 1938 سیشن 1920 لاہوراور سیشن 1922دہلی میں شریک ہوئے ا?ن میں حکیم عنائیت اللہ نسیم بھی شامل تھے۔ اس دوران میں علامہ اقبال اور قائداعظم سے بھی ملاقاتیں ہوئیں جن کا ذکر ان کی تصانیف میں موجود ہے۔ 1938 کے ضمنی انتخابات (بجنور) میں مولانا شوکت علی اور مولانا ظفر علی خان کے ساتھ کام کیا۔ قائد اعظم کی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں تشریف آوری پر جن طلباء نے ان کی بگھی کو کندھوں پر ا?ٹھایا تھا ا?ن میں نوجوان طالب علم عنائیت اللہ نسیم بھی شامل تھے۔ فسادات بہار شہر کے دوران میں آپ نے بیگم سلمیٰ تصدق حسین کے ساتھ مل کر کام کیا۔ 1937 کے عام انتخابات میں نوابزادہ لیاقت علی خاں اور کنور اعجاز کے حلقہ انتخاب مظفر نگر میں لیگ کی جانب سے ڈیوٹی کی۔ تحریک پاکستان میں مولانا ظفر علی خان اور ابوسعید انور کے ہمراہ دورے پر گئے۔ قیام پاکستان کے بعد مہاجرین کی آباد کاری ، تحریک جمہوریت اور تحریک نظام مصطفیﷺ میں کام کیا۔ حکومت پاکستان نے ان کی ملی خدمات پر تحریک پاکستان گولڈ میڈل عطا کیا۔مرحوم نظریہ پاکستان کے سچے سپاہی تھے۔ انہوں نے گزشتہ نصف صدی کی ہر قومی تحریک میں حصہ لیا مگر کبھی مفادات حاصل نہیں کئے۔ پاکستان سے محبت ان کا جزوایمان تھا۔ وہ کہا کرتے تھے یہ وطن ہم نے طویل جدو جہد اور بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے،آزادی کی ناقدری کی جس کی سقوط ڈھاکہ کی صورت میں سزا مل چکی ہے۔ پاکستان کی سلامتی اور بقاء نظریہ پاکستان کے مطابق ملک چلانے میں ہے۔ ہم نے عطیہ ربانی کی قدر نہ کی اور قائد کی امانت میں خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اسلام اور پاکستان پر جب کوئی وار ہوتا ، یا کوئی سازش ہوتی آپ تحریر اور تقریر دونوں صورت میں میدان میں آ جاتے۔ آپ مرکزی مجلس ظفر علی خان کے بانی و صدر تھے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ مولانا ظفر علی خان کے بعد وہ واحد شخصیت تھے جنہوں نے مولانا ظفر علی خان کے فکر و نظر کے چراغ کو روشن رکھا۔ اپنی عقیدت، تعلق اور دوستی کی شایان شان اور لائق تقلید مثال قائم کی۔ یوں وہ مولانا ظفر علی خان کی زندگی و شخصیت کا جزو لا ینفک بن گئے تھے۔ ا ن کی شخصیت پر قائداعظم کے سیاسی افکار و بصیرت ، علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے فلسفہ اور ظفر علی خان کے جذبوں اور ولولوں کی گہری چھاپ تھی۔ ان کی تحریریں ا ن کے گہرے سیاسی شعور اور عمیق فکر پر دلالت کرتی ہیں۔ اسلام اور پاکستان سے ان کی وابستگی عشق کی حدوں کو چھوتی تھی۔ انہوں نے جس جوش و جذبے سے تحریک پاکستان میں کام کیا اس سے زیادہ اس کی تعمیر و ترقی اور استحکام کے لئے کو شاں رہے۔
تحریک پاکستان کے تقریباًسبھی لیڈروں سے ان کے تعلقات تھے۔ مگرانہوں نے ان تعلقات کو کبھی کیش نہ کرایا۔ اسلام سے محبت ان کی گھٹی میں پڑی تھی۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی پابند صوم و صلواة تھے۔ اسلامی شعائرو روایات کے پابند تھے،اور ان کی بے حرمتی کو کسی طور پر بھی برداشت نہیں کرتے تھے۔ ان کے عشق رسولﷺ کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے قادیانیت کے فتنے کی ڈٹ کر مخالفت کی اور علی گڑھ میں بھی اس کے خلاف بھر پور جدوجہد کی۔ اس کے بعد بھی اس کے خلاف مصروف عمل رہے۔ حکیم صاحب نے اپنی تمام مصروفیات کے باوجود قلم و قرطاس اور مطب سے اپنا رشتہ قائم رکھا۔ کیونکہ بہت سے ضرورت مند ان کے مطب سے استفادہ کرتے تھے۔ ظفر علی خان پر ان کی تصنیف '' ظفر علی خان اور ان کا عہد'' شہرہ آفاق حیثیت کی حامل ہے۔ چند روزہ علالت کے بعد 9 دسمبر 1992کو پمز اسلام آباد میں انتقال فرمایا اور اگلے روز ہفتہ 10 دسمبر کو سوہدرہ میں ا ن کی نماز جنازہ حافظ احمد شاکربن مولانا عطا اللہ حنیف نے پڑھائی۔ آپ کو اپنے آبائی قبرستان میں اپنے بزرگوں کے پہلو میں آسودہ خاک ہیں