وحید حسین ۔۔۔
حال ہی میں سینئرصحافیوں کے وفد کے ساتھ افواج پاکستان کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے برسلز میں منقعدہ نیٹوممالک کے فوجی سربراہان کے اجلاس میں دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کے کردار اور مستقبل کی حکمت عملی کے بارے میں دی گئی بریفنگ سے متعلق تفصیلات بتائیں ۔آرمی چیف نے پاکستان کی سلامتی سے متعلق مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے ان تمام پہلوﺅں پر روشنی ڈالی جن پر عمل درآمد کیے بغیر بین الاقوامی برادری نہ تو دہشت گردی کی جنگ میں کامیابی حاصل کرسکتی ہے نہ افغانستان میں امن قائم کرسکتی ہے اور نہ ہی دنیابھر میں امن و سلامتی کو یقینی بنا سکتی ہے ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں پائی جاتی کہ پاکستان نے افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت اور حملے کے بعد بے شمار قربانیاں دیں اور 9/11کے نتیجے میں اس خطے میں پیدا ہونے والی سنگین اور پیچیدہ صورتحال کے بعد بھی قربانی کا بکرا بناہوا ہے۔افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ امریکہ سمیت کئی دوسرے ممالک افواج پاکستان کے کردار کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور گاہے بگاہے آئی ایس آئی پر ڈبل گیم کھیلنے کے الزامات تھوپے جاتے ہیں جس کا جواب دیتے ہوئے جنرل کیانی نے کہا کہ پاکستان کے خفیہ اداروں کے بارے میں ڈبل گیم کے الزامات سراسر بے بنیاد اور من گھڑت ہیں کیونکہ دہشت گردی کی جنگ میں اب تک خفیہ اداروں کے 73اہلکار شہید اور 264زخمی ہوچکے ہیں لہذا کوئی بھی ادارہ اپنے ہی اہلکاروں کے خلاف اس قسم کی کاروائی نہیں کرسکتا جس میں اسے خود قیمتی جانوں کا نقصان اٹھانا پڑے۔ دہشت گرد ی کی جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اب تک پاک فوج کے 287افسروں سمیت 2273اہلکار شہید جبکہ 6512زخمی ہوئے ۔ اس جنگ میں تین جنرل ور پانچ بریگیڈئیر زنے بھی جام شہادت نوش کیا ۔جبکہ افغانستان میں2002 کے بعد اب تک اتحادی افواج کے 1582اہلکار ہلاک ہوئے ۔ گزشتہ چند برسوں میں افواج پاکستان نے 209بڑے اور 510چھوٹے آپریشن کیے ۔ اس وقت پاک۔افغان سرحد پر پاکستان نے ایک لاکھ پنتالیس ہزار فوج تعینات کررکھی ہے جبکہ افغانستان میں مجموعی طور پر اتحادی افواج کی تعداد ایک لاکھ ہے ۔دوسری جانب 2612کلومیٹر پاک افغان سرحد پر دراندازی روکنے کے لیے پاکستان نے 821فوجی چوکیاں قائم کررکھی ہیں جبکہ افغانستان کی جانب سے افغان حکومت اور اتحادیوں نے 112چوکیاں قائم کر رکھی ہیں ۔ان اعدادو شمار سے اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ دہشت گردی کی جنگ میں کس کی کیا قربانیاں ہیں ۔موجودہ حالات میں جس حکمت عملی سے آرمی چیف نے پاکستان کے کیس کو عالمی برادری کے سامنے پیش کیاملک و قوم ان سے یہی توقع رکھتی ہے۔بدقسمتی سے جنرل مشرف کے نو سالہ آمریت کے دور کی وجہ سے افواج پاکستان تنقید کا نشانہ رہی تاہم جنرل کیانی نے فوج کے اعلی پیشہ وارانہ اصولوں کو اپناتے ہوئے نہایت مثبت رویئے اور ذمہ داری کا ثبوت دیا۔
اگر ہمارے تمام ادارے آئین اور قانون کے مطابق ملک و قوم کی خوشحال و ترقی کے لیے اپنا اپنا کردار ادار کرتے رہیں تو یقینی طور پر نہ صرف پاکستان مضبوط ہو گا بلکہ دنیا بھی ہمیں عزت و وقار کی نگاہ سے دیکھے گی۔
حال ہی میں سینئرصحافیوں کے وفد کے ساتھ افواج پاکستان کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے برسلز میں منقعدہ نیٹوممالک کے فوجی سربراہان کے اجلاس میں دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کے کردار اور مستقبل کی حکمت عملی کے بارے میں دی گئی بریفنگ سے متعلق تفصیلات بتائیں ۔آرمی چیف نے پاکستان کی سلامتی سے متعلق مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے ان تمام پہلوﺅں پر روشنی ڈالی جن پر عمل درآمد کیے بغیر بین الاقوامی برادری نہ تو دہشت گردی کی جنگ میں کامیابی حاصل کرسکتی ہے نہ افغانستان میں امن قائم کرسکتی ہے اور نہ ہی دنیابھر میں امن و سلامتی کو یقینی بنا سکتی ہے ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں پائی جاتی کہ پاکستان نے افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت اور حملے کے بعد بے شمار قربانیاں دیں اور 9/11کے نتیجے میں اس خطے میں پیدا ہونے والی سنگین اور پیچیدہ صورتحال کے بعد بھی قربانی کا بکرا بناہوا ہے۔افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ امریکہ سمیت کئی دوسرے ممالک افواج پاکستان کے کردار کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور گاہے بگاہے آئی ایس آئی پر ڈبل گیم کھیلنے کے الزامات تھوپے جاتے ہیں جس کا جواب دیتے ہوئے جنرل کیانی نے کہا کہ پاکستان کے خفیہ اداروں کے بارے میں ڈبل گیم کے الزامات سراسر بے بنیاد اور من گھڑت ہیں کیونکہ دہشت گردی کی جنگ میں اب تک خفیہ اداروں کے 73اہلکار شہید اور 264زخمی ہوچکے ہیں لہذا کوئی بھی ادارہ اپنے ہی اہلکاروں کے خلاف اس قسم کی کاروائی نہیں کرسکتا جس میں اسے خود قیمتی جانوں کا نقصان اٹھانا پڑے۔ دہشت گرد ی کی جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اب تک پاک فوج کے 287افسروں سمیت 2273اہلکار شہید جبکہ 6512زخمی ہوئے ۔ اس جنگ میں تین جنرل ور پانچ بریگیڈئیر زنے بھی جام شہادت نوش کیا ۔جبکہ افغانستان میں2002 کے بعد اب تک اتحادی افواج کے 1582اہلکار ہلاک ہوئے ۔ گزشتہ چند برسوں میں افواج پاکستان نے 209بڑے اور 510چھوٹے آپریشن کیے ۔ اس وقت پاک۔افغان سرحد پر پاکستان نے ایک لاکھ پنتالیس ہزار فوج تعینات کررکھی ہے جبکہ افغانستان میں مجموعی طور پر اتحادی افواج کی تعداد ایک لاکھ ہے ۔دوسری جانب 2612کلومیٹر پاک افغان سرحد پر دراندازی روکنے کے لیے پاکستان نے 821فوجی چوکیاں قائم کررکھی ہیں جبکہ افغانستان کی جانب سے افغان حکومت اور اتحادیوں نے 112چوکیاں قائم کر رکھی ہیں ۔ان اعدادو شمار سے اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ دہشت گردی کی جنگ میں کس کی کیا قربانیاں ہیں ۔موجودہ حالات میں جس حکمت عملی سے آرمی چیف نے پاکستان کے کیس کو عالمی برادری کے سامنے پیش کیاملک و قوم ان سے یہی توقع رکھتی ہے۔بدقسمتی سے جنرل مشرف کے نو سالہ آمریت کے دور کی وجہ سے افواج پاکستان تنقید کا نشانہ رہی تاہم جنرل کیانی نے فوج کے اعلی پیشہ وارانہ اصولوں کو اپناتے ہوئے نہایت مثبت رویئے اور ذمہ داری کا ثبوت دیا۔
اگر ہمارے تمام ادارے آئین اور قانون کے مطابق ملک و قوم کی خوشحال و ترقی کے لیے اپنا اپنا کردار ادار کرتے رہیں تو یقینی طور پر نہ صرف پاکستان مضبوط ہو گا بلکہ دنیا بھی ہمیں عزت و وقار کی نگاہ سے دیکھے گی۔