سر بچانے کا شوقِ فضول

گورننس کا تصور تو فلاحی ریاست کا ہوتا ہے‘ جس میں شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے ہوں اور امیر اور غریب کیلئے الگ قانون‘ الگ انصاف‘ الگ معاش اور الگ قماش کا کوئی تصور نہ ہو‘ کسی کے ماتھے پر اقتصادی مشکلات کی وجہ سے پیدا ہونے والی الجھنوں اور گھریلو تفکرات والے کوئی بل پڑتے نظر نہ آتے ہوں‘ ایلیٹ کلاس کا تصور تفاخر کے حوالے سے نہیں‘ خجالت کے حوالے سے ابھرتا ہو اور قومی‘ قدرتی اور سرکاری وسائل پر کسی ایک یا مخصوص طبقے کا نہیں‘ بطور شہری ہر انسان کا حق فائق ہو۔ فلاحی معاشرے میں نسلی‘ خاندانی‘ تہذیبی‘ گروہی اور امیری‘ غریبی کی بنیاد پر انسانوں میں تفاوت پیدا کرنے کا کلچر پنپ ہی نہیں سکتا اور جس معاشرے میں فلاحی ریاست کی بنیاد تک نہ رکھی گئی ہو‘ وہاں چاہے شخصی‘ جرنیلی‘ آمریت ہو یا سلطانی جمہور کی شیریں بیانی۔ گڈگورننس ”جس کی لاٹھی اسکی بھینس“ والی ہی ہو گی۔
خدا کے فضل سے ہم سلطانی جمہور کے موجودہ عہدِ سلطانی میں ایسی گڈگورننس سے مالامال ہیں جس میں بے وسیلہ عام آدمی راندہ درگاہ نہیں بنے گا تو اسکی گزر اوقات کیسے ہوگی؟ جس کی لاٹھی اسکی بھینس کی گورننس والا عہدِ سلطانی ہے بھائی تو اس میں وفاقی اور صوبائی کا امتیاز کیسا؟ سب پیا رنگ رنگے ہیں اور یہ ”پیا“ ان کے بامراد دلوں میں بستا ہے اس لئے موجودہ گورننس کو ہم ”دلوں کی حکمرانی“ بھی کہہ سکتے ہیں‘ پھر دلوں کی حکمرانی میں حکومتی بداعمالیوں پر نظر رکھنے والے تُھڑدلوں کا کیا کام؟ انہیں اپنی حسرتیں‘ ناکامیاں‘ نامرادیاں سمیٹ کر کہیں اور جا آباد ہونا چاہئے....
کہہ دو ان حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دلِ داغدار میں
تو جناب! اس دلِ داغدار میں مزید حسرتیں بساﺅ گے تو کہیں کے نہیں رہو گے‘ اس لئے جس کے ہاتھ میں لاٹھی ہے‘ اسی کی بھینس بنے رہو‘ جلنے‘ کڑھنے‘ ابال کھانے اور انقلاب سے امید لگانے سے کچھ ہاتھ نہیں آئیگا۔ کیا آپ کو پہلے شوگر مافیا کے ہاتھوں جان لیوا پٹخنیاں نہیں مل چکیں کہ اب آپ ٹرانسپورٹروں کے ایکے میں خود کو گھسیڑ کر اپنے لئے سانس بند ہونے والا حبس کا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں؟ یہی تو جس کی لاٹھی‘ اسکی بھینس والی حکمرانی ہے کہ پہلے پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھنے کا ”جھاکا“ ملا تو اس کو جواز بنا کر پبلک ٹرانسپورٹ کے من پسند کرائے مقرر کرکے ازخود لاگو بھی کردیئے گئے اور غضب خد کا‘ چیف جسٹس ہائیکورٹ نے اس من مانی کا نوٹس لیا تو ٹرانسپورٹ کی ہڑتال کردی گئی کہ لوگ ٹرانسپورٹ کی سہولت نہ ملنے پر خوار ہونگے‘ چیخیں ماریں گے‘ سراپا احتجاج بنیں گے اور حکمرانوں کو کوسنے دیں گے تو اس عوامی دباﺅ میں بھی انہی کے وارے نیارے ہونگے کہ حکمران طبقہ کا دل وارے نیارے والوں کیلئے ہی پسیجتا ہے۔ انکے دل آپس میں ملے جو ہوتے ہیں‘ جبکہ اس تال میل میں عدالتی عملداری شیرینی میں پڑی ہوئی مکھی کی طرح نکال باہر پھینکی جاتی ہے۔
اب یہی تو ڈرامہ چل رہا ہے جناب! ڈیڑھ دو ہفتے پہلے کے مقرر کردہ ٹرانسپورٹ کے من مانے کرائے بھی برقرار رہے اور جب اس ماہ کے پہلے روز پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے کا جھکڑ چلا تو ٹرانسپورٹ مافیا کے ایکے نے پھر کام دکھا دیا‘ عوام الناس پھر راندہ¿ درگاہ بن گئے اور ساری شیرینی پھر اسی مافیا کے آنگنوں میں پھیل گئی۔ جب گورننس جس کی لاٹھی‘ اسکی بھینس والی ہے تو سب کو لاٹھی نے ہی ہانکنا ہے‘ چنانچہ ڈیزل‘ پٹرول کے نرخوں میں چار پانچ روپے لٹر اضافہ ہوا تو پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے لاٹھی والے مافیا نے فی سٹاپ مزید دو روپے بڑھا لئے‘ سو انہوں نے خود پر فی لٹر بڑھنے والا معمولی سا بوجھ لاٹھی سے ہانکی جانے والی خلق خدا پر سٹاپ ٹو سٹاپ دو روپے اضافے کی صورت میں منتقل کردیا جس میں انہیں اپنا سابقہ بوجھ بھی خلقِ خدا کو منتقل کرنے کی سہولت مل گئی اور لاٹھی کے ساتھ شیر و شکر رہنے والی ”گورننس“ کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا ہے کہ یہ سارے حربے جس کی لاٹھی اسکی بھینس والی گورننس کو کامیابی کی جانب دھکیلنے والے ہی تو ہیں‘ اس لئے باہمی اتفاق رائے پر مبنی پبلک ٹرانسپورٹ کے نئے کرایوں کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کی نوبت بھی نہیں آئی اور دو ہفتے کے دوران دوسری بار بڑھائے گئے کرائے عوام پر مسلط بھی ہو گئے اور قبولیت کا درجہ بھی پا گئے ہیں۔
اگر چیف جسٹس ہائیکورٹ نے انہیں پابند کیا تھا کہ وہ ازخود کرائے بڑھا کر لاگو نہیں کر سکتے تو اس پابندی سے نکلنے کے بھی تو انہیں کئی گُر آتے ہیں۔ عدالتی احکام کے باوجود چینی کے نرخ 40 روپے کلو میں مقرر ہوتے ہوتے 80 روپے کلو تک جا پہنچے ہیں اور قابل قبول بھی ہو گئے ہیں‘ تو کیا اب ٹرانسپورٹروں پر ازخود کرائے بڑھانے کی پابندی برقرار رہے گی؟ انہوں نے تو ازخود کرائے بڑھانے کے اپنے عمل میں اب حکومتی رضامندی کا ٹھپہ بھی لگوالیا ہے اور یہی تو وہ ”گڈگورننس“ ہے جسے سرکشی کی فضاءمیں پروان چڑھنے کا زیادہ موقع ملتا ہے۔ اس گورننس میں سرکشی صرف لاٹھی والوں کے مقدر میں لکھی ہوتی ہے اور اس لاٹھی کا برسنا مجبور و بے بس عوام کے سروں پر مخصوص کردیا گیا ہے۔ تو جناب! خاطر جمع رکھئے‘ اس گورننس میں عوام کیلئے اپنے سر بچانا‘ عزت بچانے جیسا ایک شغل بے کار اور شوقِ فضول ہی بنا رہے گا‘ عوام کو اپنا سر اور عزت بچانی ہے تو انہیں بھینس کو ہانکنے والی لاٹھی کو توڑنا ہو گا کیونکہ یہی لاٹھی مفاد پرست اشرافیہ طبقہ کے ایکے کی علامت‘ ضمانت اور محافظ بنی ہوئی ہے۔

ای پیپر دی نیشن