ریکوڈک کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی سربراہی میں چار رکنی بنچ نے کی۔ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان صلاح الدین مینگل نے عدالت میں انیس سو اکانوے سے لے کر اب تک ریکو ڈک سے متعلق ریکارڈ پیش کیا۔عدالت نے استفسار پرکیا کہ بی ایچ پی کو رولز میں نرمی کن حالات میں دی گئی اور یہ سمری کہاں ہے تو ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ انہوں نے سارا ریکارڈ چھان لیا ہے ،ایسی کوئی سمری نہیں ملی،تاہم انہوں نے کہا کہ رولز میں نرمی کی منظوری وزیراعلٰی نے دی تھی۔ جس پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ریمارکس دیئے کہ رولز میں نرمی کا اختیار متعلقہ بورڈ آف گورنرز کو ہے یا وزیراعلٰی کو۔ جسٹس خلیل الرحٰمن رمدے نے ریمارکس دیئے کہ ایسے لگتا ہے کہ جیسے معاہدے پر آغاز ہی سے رولز میں نرمی کے سہارہ لیا گیا ہو۔ سنجرانی قبیلے کے وکیل احمد رضا قصوری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی خود مختاری کے خلاف ریکو ڈک معاہدے میں خلاف ورزی ہو رہی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جب تک ملک خود مختار ہے اس کے خلاف کوئی سازش نہیں ہوسکتی ہے۔ جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے کہا کہ پاکستانی قوم غیرت مند ہے ایک وقت کے کھانے پر بھی قناعت کرلیتی ہے جس پر احمد رضا قصوری نے کہا کہ حکومت کی سطح پرخود مختاری کہاں ہے ،ایک ریمنڈ ڈیوس کے کیس میں حکومت کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔
کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی ہے۔