وزيراعظم کاٹرائل چھوٹی بات نہیں،سوئس عدالتوں کوخط لکھوادیں معاملہ ابھی ختم ہوجائے گا.چيف جسٹس افتخارچوہدری

توہین عدالت کیس میں فردجرم عائدکرنےاور وزیراعظم کی تیرہ فروری کو طلبی کے فیصلے کے خلاف وزیراعظم گیلانی کی اپیل کی سماعت چیف جسٹس افتخار چودھری کی سربراہی میں آٹھ رکنی لارجر بینچ نے کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اپیل کے بعض نکات بھی توہین عدالت کے مترداف ہیں اوران کے ذریعے عدالت پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی ہے۔ جو خود کو بہت طاقتور سمجھتے تھے، ہم ان کے سامنے بھی نہیں جھکے۔ عدالتی حکم پر اعتزاز احسن نے اپنی اپیل سے تین قانونی اعتراضات حذف کر دیئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ صدارتی استثنی پر بات کریں گے، جس پر اعتزاز احسن نے کہا کہ عدالت مستقبل کا سوچ رہی ہے، وہ صرف وزیراعظم کا مقدمہ لیکر پیش ہوئے ہیں۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ذاتی طور پر وزیراعظم کیخلاف توہین عدالت کیس نہیں بنانا چاہتے، آئینی اور قانونی طور پر وزیراعظم کو خط لکھنا چاہیے تھا۔ اعتزاز احسن نے ریمارکس دئیے کہ انکے موکل توہین عدالت ٹرائل کی زد میں ہیں انہیں بولنے کا موقع دیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعظم بتائیں خط لکھنے سے انہیں کیا نقصان ہو گا۔ وزير اعظم کا ٹرائل چھوٹی بات نہيں، وزيراعظم کيوں اپنے ادارے کے حکم پر عمل نہيں کرنا چاہتے؟ اگرعمل نہيں کرنا چاہتے تو سپريم کورٹ کو فارغ کر کے پارٹی ورکرز کوبٹھا ديں۔جسٹس شاکر اللہ جان نے ریمارکس دئیے کہ سابق اٹارنی جنرل انورمنصور اور سیکرٹری قانون عاقل شاہ نے سمری دو ہزار آٹھ میں بھجوائی جبکہ این آر او کا فیصلہ دو ہزار نو میں آیا۔ وزیراعظم کو خط نہ لکھنے کا مشورہ دو ہزار نو سے پہلے دیا گیا ہے، وزیراعظم بتائیں کہ این آر او کے فیصلے کے بعد سوئس حکام سے کیا رابطہ کیا گیا۔ جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ فرد جرم عائد ہونے کے بعد وزیراعظم ٹرائل کورٹ میں اپنا دفاع کرسکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعظم کا عہدہ بڑی اخلاقی اقدار کا حامل ہوتا ہے۔ وزیراعظم نے ججوں کو بحال کر کے کوئی احسان نہیں کیا، بلکہ قانون پر عمل کیا تھا۔ اعتزازاحسن نے اپنے دلائل میں کہا کہ عدالت نے چھ آپشنز والے فيصلے ميں بہت سخت الفاظ لکھے، محض بادی النظر لکھ دينے سے تاثر ختم نہيں ہوجاتا جس پرچيف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ آپشن تو عدالت کے اپنے تھے، آپکے موکل کو کچھ نہيں کہاگيا۔ اعتزاز احسن نے مزید کہا کہ اگر سزا ہوئی تو وزیراعظم نہیں بلکہ یوسف رضا گیلانی جیل جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اداروں کا تصادم روکنے کے لئے عدالت آئے ہیں۔جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فیور کی بات کرنے سے عدالت کی آزادی پر حرف نہیں آئے گا،اپیل کے بعض نکات عدالت نہیں بلکہ اپیل کنندہ ہی کے لئے سبکی کا باعث بنے ہیں۔این آراو پرحتمی فیصلہ آچکا ہے،وزیر اعظم اگر سوئس حکام کوخط لکھ دیں توتوہین عدالت کا نوٹس واپس لےلیں گے۔ چیف جسٹس نےاپنےریمارکس میں مزید کہا کہ توہین عدالت کے مقدمےکوخط لکھنےکےمعاملےسےعلیحدہ نہیں کیاجاسکتا۔
سماعت کے دوران چيف جسٹس نے مزيد ريمارکس ديئے کہ اين آراو کے فيصلے کا پيراگراف ایک سو اٹھہترپڑھ ليں، صرف سوئس حکام کو نہيں بلکہ ديگر ممالک کو بھی خط لکھنا ہے۔ اس سے قبل اعتزاز احسن نے دلائل ديتے ہوئے کہا کہ وزيراعظم نے تو اس جج کو بھي بخش ديا جس نے انھيں سزا دی،جس پرچيف جسٹس نے ريمارکس ديئے کہ بخش ديا کا لفظ استعمال نہ کريں، ججز کے وقار پر مت بات کريں، اپنے موکل کو کہيں اتني تضحيک نہ کريں، وزيراعظم کو حق نہيں کہ عدليہ کی تضحيک کريں.
چیف جسٹس نے سوال کيا کہ کيا شوکاز نوٹس کا تحريری جواب دياگيا؟ شوکاز نوٹس پڑھيں،اسکا مطلب ہی جواب داخل کرانا ہوتا ہے۔اس دوران جسٹس ثاقب نثارنے ريمارکس ديئے کہ آرڈر پرعمل کيسے ہونا ہے يہ ہميں بتاديں۔ اپنے دلائل کے دوران اعتزاز احسن نے موقف اختیار کیا کہ اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ وزیراعظم کو مشورہ غلط دیا گیا تو بھی انہوں نے رولز آف بزنس پر عمل کیا لہذا ان کے خلاف توہین عدالت کیس نہیں بنتا، اسے خارج کیا جائے۔ جس کے بعد اعتزاز احسن نے مختلف ممالک کی عدالتوں کے حوالے بھی دیئے تاہم سپریم کورٹ نے اعتزاز احسن کو کل صبح ساڑھے دس بجے دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

ای پیپر دی نیشن