انتخابات کے التوا کا خدشہ۔۔۔ اصل خطرہ کہاں سے ہے؟

علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اسلام آباد کے لانگ مارچ کے بعد 15فروری سے ملک بھر میں انقلاب مارچ شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا ہے کہ وہ انتخابات کا التوا نہیں چاہتے لیکن آئین کے آرٹیکل 62، 63 پر عملدرآمد کو یقینی بنانے اور پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں عوام کے حقیقی نمائندوں کی یقینی رسائی کیلئے وہ انتخابی اصلاحات پر سختی کے ساتھ عملدرآمد کرائیں گے۔ انہوں نے 4فروری کو لاہور میں اپنے لائحہ عمل کا اعلان کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ ان کے پیچھے کسی ملکی یا غیرملکی طاقت کا کوئی ہاتھ کارفرما نہیں ہے۔ انہوں نے پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے حوالے سے کہا ہے کہ ان کا روزاول سے ملک کے چیف آف آرمی سٹاف سے کوئی رابطہ نہیں ہے اور انہوں نے ہم خیال سیاسی قوتوں کو انقلاب مارچ میں ساتھ چلنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ انتخابی اصلاحات کیلئے اگر کوئی انکے ساتھ چلنا چاہتا ہے تو وہ اسے خوش آمدید کہیں گے۔ علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی طرف سے انقلاب مارچ کے اعلان اور ملک میں تبدیلی کے آرزو مندوں کو ساتھ چلنے کی دعوت پر اگلے ہی روز تحریک انصاف کے دونوں نامی گرامی مخدوموں جاوید ہاشمی اور شاہ محمود قریشی نے تحریک منہاج القرآن کے مرکزی دفتر میں ان سے ملاقات کر کے انہیں اپنے لیڈر عمران خان کی طرف سے تبدیلی کے سفر پر نکلنے پر خیرسگالی کا پیغام پہنچایا اور کہا کہ تحریک انصاف پاکستان عوامی تحریک کو آئندہ انتخابات میں اپنا اتحادی دیکھنا چاہتی ہے۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ تحریک انصاف کے لیڈروں نے انقلاب مارچ میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ نکلنے کا عندیہ دیا ہے یا نہیں البتہ مخدوم جاوید ہاشمی اور مخدوم شاہ محمود قریشی کی ڈاکٹر طاہرالقادری سے ملاقات پر مسلم لیگ(ن) کی طرف سے شدید ردعمل ضرور سامنے آیا ہے۔ پارٹی کے اہم لیڈر اور قومی اسمبلی کے رکن احسن اقبال نے ڈاکٹر طاہرالقادری اور تحریک انصاف کے گٹھ جوڑ کے پیچھے جمہوریت کو ڈی ریل کرنے والے ہاتھ کو پہچان لینے کا دعویٰ کر دیا ہے۔ احسن اقبال کو ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کے پیچھے جن قوتوں کے کار فرما ہونے کا گمان ہے ان پر تحریک انصاف کے 23 مارچ 2012ءکے جلسے کے بعد سے یہ الزام لگایا جا رہا تھا کہ وہ ملک میں سیاسی تبدیلی کا نہیں ایجنسیوں کا کھیلا کھیلنے کیلئے مقابلے میں اتری ہے۔ یہی الزام علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے 23دسمبر 2012ءکے لاہور کے جلسہ کے بعد ڈاکٹر طاہرالقادری پر بھی لگایا گیا اور اب احسن اقبال کی طرف سے دوٹوک انداز میں کہہ دیا گیا ہے کہ عمران خان اور طاہرالقادری دونوں کا ایجنڈا ملک میں انتخابات کا انعقاد نہیں ہے۔ وہ دونوں انتخابی اصلاحات کی مہم کے پس پردہ آئندہ عام انتخابات کو ملتوی کرانے کے علاوہ ملک میں کسی ایسے عارضی حکومتی سیٹ اپ کو اقتدار میں لانا چاہتے ہیں جو ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ہو اور ملک میں عام انتخابات سے پہلے دو یا تین ماہ کی بجائے زیادہ عرصے تک اقتدار میں رہ کر کرپشن مافیا کا قلع قمع کرنے کے علاوہ ملک میں امن و امان کا مسئلہ حل کرے۔ اس سے پہلے مسلم لیگ(ن) کے قائد میاںمحمد نوازشریف نے اپنے حالیہ دورہ سعودی عرب کے اختتام پر پاکستان روانگی سے پہلے جدہ ایئرپورٹ پر اخبار نویسوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”بعض قوتیں الیکشن ملتوی کرنے کی سازش کر رہی ہیں مگر ہم ایسا نہیں ہونے دینگے“۔ مسلم لیگ(ن) کی طرف سے عمران خان پر یہ الزام لگایاجاتا رہا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی گھوڑا ہے اور اب یہی الزام مسلم لیگ (ن) کے علاوہ بھی بہت سی سیاسی قوتوں نے ڈاکٹر طاہرالقادری پر عائد کیا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے انقلاب مارچ کا اعلان کرتے ہوئے دوٹوک انداز میں کہا ہے کہ وہ انتخابات کا التوا نہیں چاہتے جبکہ عمران خان نے تحریک منہاج القرآن کے اسلام آباد دھرنے میں شامل ہونے کی سوچ رکھتے ہوئے بھی تحریک انصاف کو اس دھرنے سے دور رکھا تھا کہ کہیں اس سے ملک میں عام انتخابات کی منزل عوام سے دور نہ ہو جائے۔ جب اسلام آباد لانگ مارچ اعلامیہ پر حکومتی اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے دستخط کر دیئے اور حکومتی اتحاد نے نگران حکومت کے وزیراعظم کیلئے اپنے دو ناموں کیلئے ڈاکٹر طاہرالقادری کی رائے سے مشروط کرنے کا وعدہ کر لیا تو اپوزیشن کی زیادہ تر جماعتوں کی طرف سے قادری لانگ مارچ اور اسلام آباد دھرنے کو صدر آصف علی زرداری کا سٹیج کیا گیا ڈرامہ قرار دیا گیا تھا اور یہ باتیں زبان زدعام و خاص ہو گئی تھیں کہ صدر مملکت خود انتخابات کے التوا کی سازش کر رہے ہیں۔ زرداری نے سیاسی مفاہمت کے نام پر ملک کے کم و بیش تمام سیاست دانوں کو پیپلزپارٹی کے اقتدار کے لئے استعمال کیا ہے یہی وجہ ہے کہ انتخابات کے التوا کی ملک میں اگر کوئی سازش ہوتی نظر آرہی ہے تو اس کے پیچھے صدر آصف علی زرداری کے ہاتھ کارفرما ہونے کا شبہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے پیچھے تو صدر زرداری کا ہاتھ ہو سکتا ہے اور اس امر کا امکان موجود ہے کہ انکے لانگ مارچ اور انقلاب مارچ کیلئے صدر آصف علی زرداری کے ذریعے اکٹھی کی گئی رقم خزانے کی رقوم کی طرح خرچ کی جا رہی ہوں لیکن عمران خان کبھی بھی صدر آصف علی زرداری کے کھیل کا حصہ نہیں بن سکتا کیونکہ وہ انہیں کرپشن اور کمیشن کا شاہکار قرار دیتے ہوئے ملک کو لوٹ مار کی سیاست کرنے والوں سے نجات دلانے کی بات کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ مخدوم جاوید ہاشمی ہے جو صدر آصف علی زرداری کو پاکستان کے دیگر سیاست دانوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ سمجھتا ہے اور مخدوم شاہ محمود قریشی ہے جو خود زرداری سے سیاست کی راہ الگ کر کے آیا ہے۔ پیپلزپارٹی کی سیاست کا گھر کا بھیدی ہے اور آصف علی زرداری کی سیاسی لنکا ڈھانے کے عزم پر پیپلزپارٹی کو چھوڑ کر تحریک انصاف میں آیا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما¶ں نے تحریک منہاج القرآن کا دورہ یقینا طاہر القادری کو حکمران اتحاد کی سیاسی لابی سے الگ کرنے کیلئے کیا ہے۔ اگر ڈاکٹر طاہرالقادری انتخابات کے التوا کا کھیل کھیل رہا ہے تو وہ تحریک انصاف کو کبھی اپنے شانہ بشانہ چلانے کی غلطی نہیں کرے گا۔ میاں محمد نوازشریف اور احسن اقبال دونوں کا یہ خدشہ اپنی جگہ بجا ہے کہ ملک میں کوئی نہ کوئی ایسی قوتیں موجود ہیں جو 2013ءکے عام انتخابات کا التوا چاہتی ہیں اور یہ قوتیں کون ہو سکتی ہیں۔ صرف اقتدار میں بیٹھے ہوئے لوگ ہی انتخابات کے التوا کا باعث ہو سکتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر اسلام آباد لانگ مارچ مذاکرات کیلئے حکومتی اتحاد میں شامل سیاست دان انکے کنٹینر تک نہ پہنچتے تو پانچ منٹ بعد ملک میں مارشل لاءآ جاتا۔ اب انہوں نے مارشل لاءلگانے والوں سے شروع دن سے لاتعلق ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ حکمران پیپلزپارٹی کے ایک انتہائی اہم سیاست دان سینیٹر رضا ربانی نے سب سے پہلے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ انہیں انتخابات ہوتے نظر نہیں آتے اور وہ جمہوریت کو ڈی ریل ہوتے ہوئے محسوس کر رہے ہیں۔ وہ کھل کر انتخابات کو معرض التوا میں ڈالنے والی قوتوں کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکے مگر جن سیاسی قوتوں نے انتخابات سے چند ماہ پہلے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں ”بی جے پی“ کے نام سے نیا صوبہ بنانے کی صورت میں ایک نیا سیاسی ہنگامہ کھڑا کیا۔ جو مقتدر حلقے یہ کہہ رہے ہیں کہ ”اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو معاف نہیں کیا جائیگا“ اور وہ ججوں کو آئین و قانون کی حد میں رہنے کے مشورے دے رہے ہیں۔ یہی وہ مقتدر حلقے ہیں جو ملک میں عام انتخابات کا التوا چاہتے ہیں۔ چیئرمین نیب سے چیف جسٹس پاکستان کے ازخود نوٹس کے آئینی اختیار پر کھلی تنقید اور انتہائی توہین آمیز عبارت سے آلودہ مراسلہ کس نے صدر مملکت کو لکھوایا، بھجوایا اور کس نے اس مراسلہ کی عبارت شہ سرخیوں کیلئے اخبارات اور چینلز کو فراہم کی۔ اس قوت کو تلاش کرنے کیلئے میمو سکینڈل کیس کے فیصلہ کن مرحلے میں آ جانے کے آئینے میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اندازہ لگا لیجئے جب میمو سکینڈل کیس کا فیصلہ آئیگا تو اسکے بعد ایوان اقتدار میں بیٹھے بھاری بھر کم اور سب پر بھاری سیاست دان کا ردعمل کیا ہو گا۔ مارشل لاءنہیں آئیگا کہ سپریم کورٹ اب کہ آنے والوں کے ”انقلاب“ کو جائز قرار نہیں دے گی لیکن اگر کسی کیس کے فیصلے میں ایوان صدر کو افواج پاکستان کے خلاف کسی سازش میں ملوث قرار دیا گیا تو تین ماہ کیلئے قائم ہونے والا نگران سیٹ اپ تین سال تک طویل ہو سکتا ہے۔ سنیٹر رضا ربانی کے اندیشہ ہائے دور دراز کی حقیقت یقیناً یہی ہے اور یہی وہ ان دیکھے خدشات ہیں جو ذہنوں سے چپکے ہوئے ہیں۔ ان سے بچنا ہے تو ملک میں فوری انتخابات کرانے کی ضرورت ہے۔

ای پیپر دی نیشن