لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائیکورٹ کے مسٹر جسٹس منصور علی شاہ نے رہائشی علاقوں میں سی این جی سٹیشنز قائم کرنے کے خلاف دائر رٹ درخواست کی سماعت میں ریمارکس دیئے ہیں کہ بنیادی حقوق کا تحفظ عدالت کی اولین ذمہ داری ہے۔ عدالت تمام متعلقہ اداروں کے لوگوں کو بلائے گی اور یہ تسلی کرے گی کہ بنیادی حقوق کا تحفظ فراہم ہو رہا ہے یا نہیں۔ مفادِ عامہ کے کیسز میں عدالت مانگی گئی استدعا سے آگے بھی جاسکتی ہے۔ فاضل عدالت کے رو برو گزشتہ روز ڈی سی او لاہور نور الامین مینگل نے پیش ہو کر بتایا کہ لنک وحدت روڈ 2010ءمیں کمرشل کر دی گئی تھی اور متعلقہ محکموں سے این او سی لینے کے بعد سی این جی سٹیشن لگانے کی اجازت دی گئی۔ مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ جو رولز بنائے گئے ہیں کیا اُس میں سی این جی پٹرول پمپ لگانے کی اجازت ہے؟ اس پر سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے وکیل افتخار میاں نے عدالت کو بتایا کہ رول 8 میں اس کی اجازت دی گئی ہے۔ عدالت نے پوچھا کہ کیا محکمہ ماحولیات نے کیا اس کی ای آئی اے ےا آئی ای ای کروائی ہے جس پر محکمہ ماحولیات کے آفیسر نے بتایا کہ سی این جی پمپ قائم کرنے کے لئے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں صرف ایک درخواست دی جاتی ہے اور این او سی جاری کر دیا جاتا ہے۔ جسٹس سید منصور نے استفسار کیا کہ آپ نے اس بارے اپنا ذہن استعمال کیا کہ رہائشی علاقوں میں سی این جی سٹیشنز سے ماحولیات کے کیا نقصانات ہو سکتے ہیں اس پر متعلقہ افسر نے جواب دیا کہ سی این جی سٹےشن لگانے کےلئے سیکشن 12 کے طریقہِ کار کے بغیراجازت نہیں دی جاسکتی۔ درخواست گذار کے وکیل محمد اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کو صرف کمرشل فیس چاہئے اُسے باقی معاملات نہیں دیکھنے آتے۔ خواجہ سعید ظفر نے عدالت کو بتایا کہ سی این جی سٹیشن جلدی نہ کھولنے سے انہیں کاروباری نقصان ہو رہا ہے۔ اس پر مسٹر سید منصور علی نے کہا عدالت اطمینان کرنا چاہتی ہے کہ ماحولیاتی پابندیوں کا اطلاق ہو رہا ہے کہ نہیں۔ اگر کوئی جان جائیگی تو کس کی ذمہ داری ہوگی۔ عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد کیس کی مزید سماعت یکم مارچ تک ملتوی کرتے ہوئے ماحولیاتی اور دیگر مسائل کو دیکھنے کے لئے متعلقہ اداروں کے متعلقہ افسران کو طلب کر لیا۔