پاکستان ہی نہیں امریکہ میں بھی امن پسند تنظیمیں اور بعض ماہرین قانون ڈرون حملوں کو ”ماورائے عدالت قتل“ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی قوانین کسی بھی شخص کو بغیر مقدمہ چلائے قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور لوگوں کی ڈرون حملوں میں ہلاکت غیر قانونی اقدام ہے۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے اعتراف کیا ہے کہ ڈرون حملوں میں مرنے والوں کی تعداد معلوم نہیں جبکہ امریکی تھنک ٹینک نیو امریکن فاﺅنڈیشن کے اعداد و شمار کے مطابق پچھلے آٹھ برسوں میں امریکی ڈرون حملوں میں تین ہزار لوگ مارے گئے جن میں 2400 دہشت گرد اور 600 کے قریب عام شہری تھے۔ 2012 میں کُل 44 ڈرون حملے ہوئے جبکہ اب تک پچھلے ایک ماہ میں سات حملے ہو چکے ہیں۔ امریکی میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی انتظامیہ کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ صدر اوباما نے محکمہ انصاف کو وہ خفیہ دستاویزات کانگریس کے حوالے کرنے کا حکم دیا ہے جن میں بیرون ملک موجود شدت پسند امریکی شہریوں پر ڈرون حملوں کا قانونی جواز پیش کیا گیا ہے۔ امریکی حکومت اپنے شہریوں کے خلاف بھی ایسے حملوں کو جائز قرار دیتی ہے اگر اسے شہریوں کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کا یقین ہو جائے۔ بعض امریکی ماہر قانون اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس پالیسی پر کڑی تنقید کی ہے اور اپنے شہریوں کے خلاف ایسی کارروائی کو قتل قرار دیا ہے۔ اس وقت امریکی انتظامیہ پاکستان کے قبائلی علاقوں اور یمن میں القاعدہ سے منسلک شدت پسندوں کے خلاف ڈرون حملوں کی غیر اعلانیہ پالیسی پر عمل پیرا ہے جبکہ ناقدین کا کہنا ہے کہ ڈرون حملوں میں بے گناہ شہری بھی مارے جاتے ہیں جو کہ غیر قانونی فعل ہے۔ امریکی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ سعودی عرب کا ایک خفیہ فضائی اڈہ امریکہ کے استعمال میں ہے جسے سی آئی اے ڈرون حملوں کے لئے استعمال کر رہی ہے۔ امریکی میڈیا کو گزشتہ ایک برس سے اس خفیہ ہوائی اڈے کے سی آئی اے کے زیر استعمال ہونے کے متعلق علم تھا مگر امریکی انتظامیہ کی درخواست پر یہ خبر شائع نہیں کی تھی۔ امریکہ سمجھتا ہے کہ اس قسم کی خبروں سے عرب خطے میں شدت پسندوں کے خلاف کاروائی متاثر ہو سکتی ہے۔ ڈرون حملوں میں عام شہریو ں کی ہلاکت پر امریکہ کے ایوانوں میں بھی تشویش پائی جاتی ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق لوگ جب ٹی وی پر اپنے وطن سے ہزاروں میل دور امریکی ڈرونز حملوں کے مناظر دیکھتے ہیں تو انہیں وحشت ہوتی ہے اور ان حملوں کو غیر انسانی اور غیر قانونی قرار دیتے ہیں جبکہ امریکی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی قانون کے تحت2001 ءسے امریکہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے ملک کے دفاع کے لئے دہشت گردوں کے خلاف ڈرون حملے کر سکتا ہے۔ یمن، صومالیہ اور پاکستان کی حکومتوں نے انہیں ڈرون حملوں کی اجازت دے رکھی ہے۔ دوسری طرف ڈرون حملوں سے عداوت کے جذبات اُبھرتے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان میں ڈرون حملوں میں کمی لانے کی کوشش کی گئی مگر امریکی انتظامیہ کے نزدیک جب تک پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گرد موجود ہیں، خطے میں امن بحال نہیں ہو سکتا اور امن کے لئے ڈرون حملے مو¿ثر ثابت ہو رہے ہیں۔ امریکہ ڈرون طیاروں کی تعداد میں اضافہ کر رہا ہے۔ سی آئی اے ان ڈرون طیاروں کو صیغہ راز میں رکھنا چاہتا ہے جبکہ اوباما انتظامیہ کی جانب سے ڈرون طیاروں کا چرچا ہوتا رہتا ہے۔ امریکہ کا محکمہ دفاع اعتراف کرتا ہے کہ ڈرون حملوں کی تاریخ میں سب سے زیادہ حملے پاکستان میں کئے گئے ہیں اور مستقبل میں مزید شدت متوقع ہے۔ امریکی فوج نے 2007ءمیں پاکستان کی خفیہ فوجی ایجنسی آئی ایس آئی کودہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔ امریکی فوج کو شبہ تھا کہ اس کی تحویل میں موجود پاکستانی خفیہ ایجنسی سے رابطوں میں رہنے والے افراد یا تو ماضی میں القاعدہ اور طالبان کو مدد فراہم کرتے رہے ہیں یا وہ امریکی اور اتحادی افواج کے خلاف کارروایﺅں میں ملوث رہے ہوں گے۔ پاک فوج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے ساتھ جو ناجائز تعلق قائم کیا تھا، ڈرون اسی ناجائز تعلق کی شرمناک نشانی ہے۔ وار آن ٹیرر کو پاکستان نے اپنے گلے ڈال کر سنگین غلطی کی ہے جس کا خمیازہ نہ صرف پاک فوج بلکہ اندرون و بیرون ملک پوری پاکستانی قوم بھگت رہی ہے۔ امریکہ کو پاکستان کی ضرورت ہی نہیں بلکہ اشد ضرورت ہے لہٰذا فوج کو اپنا مقام بحال کرنے اور وار آن ٹیرر کے پھندے سے آزادی کے لئے مو¿ثر حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی۔