کہانی کے مطابق لاولد بادشاہ کے انتقال کے بعد، اکابرین ِ سلطنت اس بات کا فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے کہ، نیا بادشاہ کون ہو گا ؟ بادشاہت کے امیدوار بہت سے تھے ، لیکن اُن میں سے ، کسی ایک کو بادشاہ بننا تھا ۔’یک انار و صد بیمار“۔ والا معاملہ تھا ۔ آخر طے پایا کہ جو شخص کل صبح سب سے پہلے داراُلسلطنت کے بڑے دروازے سے، داخل ہو ، اُسے بادشاہ بنا دیا جائے ۔ اکابرینِ سلطنت کا یہ فیصلہ ُمتفقہ تھا ، چنانچہ اگلی صبح جو شخص سب سے پہلے شہر میں داخل ہُوا ، اُسے تختِ شاہی پر بٹھا دِیا گیا ۔
کہانی پُرانے دور کی ہے ۔ اُس دور کی کہ جب ، تار ، ٹیلی فون/ موبائل، ٹیلیکس، فیکس اور سکائپ وغیرہ کی ایجادات نہیں ہُوئی تھیں، ورنہ سلطنت کا ہر اکبر (بڑا) اپنے پسندیدہ امیدوار کو پیشگی اطلاع کر دیتا کہ ” عالی جاہ ! فوراً آکر صبح ہونے سے پہلے، شہر کے بڑے دروازے کی کُنڈی سے آکر لٹک جاﺅ ! باقی کام میں خُود سنبھال لُوں گا !“۔
جمہوری دور میں ایسا نہیں ہوتا ورنہ اسلام آباد کے زیرو پوائنٹ پر مقررہ وقت سے تین دِن پہلے ہی، نگران وزارتِ عُظمیٰ کے امیدواروں کی قطار لگ جاتی ۔ کِتنا اچھا تھا ہمارا وہ ۔”جمہوری دور“ ۔ جب کوئی بھی معزز شخص ، وائٹ ہاﺅس کے تخت پر جلوہ افروز ۔” احکم اُلحاکمِین“۔ سے سفارشی رقعہ لے کر آجاتا تھا کہ ۔” حامل رقعہ ہٰذاکو” باقاعدہ یا نگران وزیرِاعظم بنا دِیا جائے !“۔ حُکم کی تعمیل ہوتی تھی اور وہ تنازع کھڑا نہیں ہوتا تھا ، جو آج ہے اور پوری قوم۔” انتظار فرمائیے!“ ۔ کے سائن بورڈ کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہی ہے۔ شاعر نے کہا تھا ۔۔۔
” رُوئے انور میں ، کیا صفائی تھی ؟
چاند نے ، ٹکٹکی، لگائی تھی ! “
جب تک نگران وزیرِاعظم کا ۔” رُوئے انور “۔ نظر نہ آجائے، قوم اپنی ٹکٹکی کھول بھی تو نہیں سکتی ۔ آئینی ترمیم کے مطابق تو ،نگران وزیرِاعظم کا تقرر ، وزیرِاعظم راجا پرویز اشرف اور قومی اسمبلی میں قائدِ اختلاف چودھری نثار علی خان نے ، باہمی ( مشاورت سے) متفقہ طور پر کرنا تھا ، لیکن جو، سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ سے باہر ہیں ( یعنی جنہوں نے 2008ءکے عام انتخابات کا بائیکاٹ کِیا تھا) اُن کی دِلجوئی کے لئے اُن سے بھی مشاورت کی جا رہی ہے ۔ یہ ایک اچھی بات ہے ، لیکن فی الحال مشاورت کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہو رہا ۔راجا پرویز اشرف اور چودھری نثار علی خان میں تو ابھی تک ۔” کُٹّی “۔ چلی آ رہی ہے ۔ اگر دونوں حضرات میں اتفاق نہ ہُوا تو فیصلہ چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر اُلدین جی ابراہیم کریں گے ۔فخرو بھائی “۔اپنی مرضی کے مالک ہیں ۔” رقعہ “۔ وصول ہی نہیں کرتے ، وائٹ ہاﺅس سے آئے یا کسی بلیک ہاﺅس سے ۔
ایک نُکتہ ۔ آئِینی نہیں، خالصتاً اخلاقی ہے اور وہ یہ کہ، وزیرِاعظم راجا پرویز اشرف ( سابق) وزیر پانی و بجلی کی حیثیت سے رینٹل پاور کرپشن کیس میں ملّوث ہیں اور سُپریم کورٹ کی طرف سے اُن کی گرفتاری کا حُکم بھی دِیا جا چُکا ہے ۔ کیا وزیرِاعظم سے آئین کی دفعات 63/62 پر پورا اُترنے والے نگران وزیرِاعظم کے تقرر میں دیانتداری کی توقع کی جا سکتی ہے؟ ۔ علّامہ طاہر اُلقادری تو خیر باہر والے ہیں ،، نہ جانے کب کینیڈا واپس چلے جائیں ۔ وزیرِاعظم سے اُن کے معاہدے کی بھی کوئی آئینی /قانونی حیثیت بھی نہیں ۔ ، لیکن علّامہ صاحب ، الیکشن کمِشن کو تحلیل کرانے کے لئے ( نہ جانے کِس سے لے کر) اُدھار کھائے بیٹھے ہیں ۔ بقول شاعر ۔۔۔
” خرید لیں ، کسی یوسف کو ، بیچ کر ا یماں
اِسی پہ ، حضرتِ دِل ہیں ، اُدھار کھائے ہُوئے “
شیخ سعدی شیرازی (1192ئ۔1291ء) اپنی ۔” گُلِستان“۔ میں لِکھتے ہیں کہ ۔ کسی بادشاہ نے اپنے ایک وزیر کو چند ہزار دِینار۔زاہدوں میں تقسیم کرنے کا حُکم دِیا ۔ اگلے دِن وزیر نے۔ دِیناروں سے بھری تھیلی ، بادشاہ کی خدمت میں واپس کر دی۔ بادشاہ نے پوچھا ۔ ” تم نے دِینار زاہدوںمیں تقسیم نہیں کئے؟ ۔۔ وزیر نے ہاتھ باندھ کر عرض کِیا ۔” عالم پناہ! جو لوگ زاہد ہیں ، انہوں نے دِینار لینے سے انکار کر دیا ہے اور جو زاہد نہیں ہیں ، ڈھونگی ہیں، اُن میں،مَیں نے دِینار تقسیم نہیں کئے !“۔
اِس گئے گزرے دور میں بھی ، ہمارے یہاںایسی سیاسی اور غیر سیاسی شخصیات کی کمی نہیں ، جنہیں کردار کے لحاظ سے ۔ زاہدوں۔ میں شمار کِیا جا سکتا ہے لیکن جو، نگران وزیرِاعظم بننے کی ۔”بدنامی “۔مول لینے کو تیار نہیں ہیںاور اپنی عِصمت بچا کر بیٹھے ہیں ،لیکن کسی نہ کسی کو تو یہ ۔” بدنامی“۔ مول لینا ہی پڑے گی ۔ اقتدار کی خواہش بُری نہیں ، بشرطِ کہ مقصد عوام کی خِدمت کرنا ہو ۔ حضرت یوسف ؑ سے ،جب فرعونِ مِصر نے اپنے خواب کی تعبیر ا ور آئندہ آنے والی قحط سالی کا علاج دریافت کِیا تو انہوں نے فرمایا کہ ۔” آپ مجھے مِصر کا وزیرِ مالیات مقرر کر دیں سب کُچھ ٹھیک کر دوں گا “۔ فرعون نے ایسا ہی کیا ۔ حضرت یوسفؑ نے مِصر کو خوشحال بنا دیا ۔ ہمارے یوسف رضا گیلانی نے، اُس کے اُلٹ کِیا ، رہی سہی کسر، راجا پرویز اشرف نے پُوری کر دی ۔تو صاحبو! کسی نہ کسی کو تو نگران وزیرِاعظم بنانا ہی ہو گا کہ یہ آئینی ضرورت ہے ۔ نگران وزیرِاعظم آئے گا تو عام انتخابات کرائے گا ۔ اور عِزّت سے اپنے گھر واپس چلا جائے گا ۔ اس سے قبل جتنے بھی نگران وزرائے اعظم آئے ، سب پر الزامات لگے ، لیکن کسی نے کسی بھی الزام کا،بُرا نہیں منایا ۔ داغ دہلوی جب اِس صورتِ حال سے دو چار ہُوئے تو کہا۔۔۔
” داغ کو ، چَین بھی ، نہیں آتا
جب تک ، اُن سے ، بُرا بھلا نہ سُنے “
اِس بار، جو بھی نگران وزیرِاعظم ہو گا، اُسے کڑے امتحان سے گُزرنا ہُوگا ۔ اُس کے ایک ایک عمل اور ایک ایک حرکت کی نگرانی ہو گی ۔ یہ نگرانی ،خُفیہ ایجنسیوں والی نہیں ہو گی ۔19کروڑ 75لاکھ انسانوںکی آنکھیں اپنے عبوری حُکمران کی نگرانی کریں گی کہ وہ جتنا عرصہ کُرسی پر بیٹھا ۔”صادق اور امین “۔ رہا یا نہیں؟ہمارے یہاں ہر کُرسی نشِین اپنی کُرسی کو مضبوط سمجھتا ہے ۔ وزیرِاعظم ذُوالفقار علی بھٹّو اور صدر جنرل ضیاءاُلحق نے تو اپنی اپنی کُرسی کے ہتّھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا تھا کہ ” میری کُرسی بہت مضبوط ہے“ پھِر چشمِ فلک نے باری باری دونوں کو غیر فِطری موت کی بھینٹ چڑھتے دیکھا ۔ حضرت علی مرتضیٰؓ نے خلیفہ کی حیثیت سے، اپنے ایک گورنر ، مالک بِن اُشتر کو لِکھا تھا ۔” اگر یہ کُرسی مستقل ہوتی تو تُم تک کیسے پہنچتی ؟۔
حُکمران اور اپوزیشن قائدِین اِس بات کا کریڈٹ لے رہے ہیں کہ ۔”عام انتخابات کے بعد پُر امن انتقالِ اقتدار ہونے جا رہاہے اور جمہوریت کی گاڑی، پٹڑی پر سے اُترنے نہیں دی گئی“۔بجا فرمایا، لیکن گزشتہ 5سال میں جمہوریت کے علمبرداروں نے عوام کا بھی تو پٹڑا کر دیا ہے۔ داغ دہلوی کے ساتھ جب یہی کُچھ ہُوا تو انہوں نے کہا ۔۔۔۔
”آ کے مہماں ، سب وہ ساماں ، لے گئے
میرے سارے ، گھر کا ، پٹڑا کر دیا “
نگران وزیرِاعظم، کوئی بھی صاحب/صاحبہ ہوں ۔ میری ننھی سی گزارش ہے کہ وہ اُس کُرسی پر ہرگز تشریف نہ رکھیں، جِس پر جناب یوسف رضا گیلانی اور اُن کے بعد راجا پرویز اشرف براجمان رہے ۔ بے شک کُرسی، کرائے پرمنگوا لیں ۔