بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے پنجاب میں پیپلزپارٹی کو فعال کرنے کیلئے ایک طرف تو یہ اعلان کیا گیا ہے کہ وہ مستقبل قریب میں پنجاب کے تمام شہروں کا دورہ کرینگے اور دوسرے پیپلزپارٹی پنجاب کے موجودہ صدر میاں منظوراحمد وٹو کی سیاسی فعالیت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے، بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے انہیں کہا گیا ہے کہ وہ انکے دورہ پنجاب سے پہلے مختلف اضلاع اور تمام بڑے شہروں میں پارٹی سے تنظیمی عہدیداروں میں مناسب تبدیلیاں کر کے ایسے افراد کو ان عہدوں سے ہٹا دیں جو سیاسی طور پر زیادہ فعال نہیں رہے۔ پیپلزپارٹی نے جس طرح 2013ءکے عام انتخابات میں پنجاب بھر میں شکست کھائی ہے۔پنجاب جس نے ذوالفقار علی بھٹو کو قائد عوام بنایا تھا اور جس صوبے سے پیپلزپارٹی کو پہلے قومی انتخابات میں حصہ لینے پر سندھ کے مقابلے میں کہیں زیادہ کامیابی ملی تھی اس صوبے میں پیپلزپارٹی کا صفایا ہو جانا انتہائی تعجب خیز ہے۔ اصولاً پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کو پنجاب میں پیپلزپارٹی کی خوفناک شکست پر پہلے صوبے کے تنظیمی عہدوں اور اسکے بعد مختلف اضلاع اور بڑے شہروں میں غیرفعال عہدیداروں کو فارغ کر کے نئے عہدیداروں کی تقرریاں کرنی چاہئیں تھی اور اگر ایسا کیا جاتا تو سب سے پہلے خود میاں منظور احمد وٹو کو صدر پیپلزپارٹی پنجاب کے عہدہ سے چلتا کرنے کی ضرورت تھی۔ میاں منظور احمد وٹو بنیادی طور پر پیپلزپارٹی کے جیالے پن سے یکسر محروم ہیں اور وہ اس پارٹی کے جیالوں کو متحرک کرنے اور ان سے صحیح سمت میں سیاسی کام لینے کے اہل ہی نہیں ہیں اور نہ ہی پنجاب کے مختلف اضلاع اور شہروں میں پیپلزپارٹی کے تمام جیالوں اور روٹھے ہوئے کارکنوں سے واقف ہیں۔ خیر میاں منظور احمد وٹو کو پیپلزپارٹی پنجاب کا صدر رکھنا یا نہ رکھنا پارٹی کی اعلیٰ قیادت کا اپنا انتخاب ہے تاہم یہ فیصلہ درست ہے کہ پیپلزپارٹی کو اگر مستقبل میں پنجاب میں اپنا وجود قائم رکھنا ہے تو اس کے تنظیمی عہدوں پر فعال کارکنوں کو آگے لانا ضروری ہے۔ ڈسٹرکٹ فیصل آباد اور فیصل آباد شہر جو 1970ءاور 1977ءکے انتخابات میں پنجاب میں پیپلزپارٹی کا ”لاڑکانہ“ بن کر سامنے آیا تھا۔ اس ضلع سے الیکشن 2013ءمیں پیپلزپارٹی مکمل طور پر قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں سے کیوں محروم رہی۔ پورے ضلع بلکہ پوری فیصل آباد ڈویژن میں پیپلزپارٹی کا صفایا کیوں ہو گیا؟۔ اس وقت پنجاب کے سابق سینئر وزیر اور سابق اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض احمد پارٹی کے ڈویژنل کوارڈی نیٹر ہیں یعنی وہ فیصل آباد ڈویژن سے پیپلزپارٹی پنجاب کے وائس چیئرمین ہیں انکے سیاسی ڈیرے کو فیصل آباد کا ایک اہم سیاسی ڈیرہ ہونے کا شرف حاصل ہے لیکن سوال یہ ہے کہ وہ ضلع فیصل آباد الیکشن 2008ءمیں جس سے قومی اسمبلی کی سب سے زیادہ نشستیں فیصل آباد کے پاس تھیں، گیارہ میں سے پیپلزپارٹی کے ارکان قومی اسمبلی کی تعداد 13 تھی اور پنجاب اسمبلی کی زیادہ نشستوں پر بھی پیپلزپارٹی کے کارکنوں کا ہی قبضہ تھا۔ 2008ءکے انتخابات میں جب ملک میں ”نواز زرداری بھائی بھائی“ کے نعرے لگ رہے تھے۔ پنجاب میں مسلم لیگ(ن) نے پیپلزپارٹی کے ساتھ ”ساٹھ کے مقابلے میں چالیس“ کی نمائندگی اور اختیارات پر دونوں جماعتوں کی کولیشن حکومت قائم کی تھی اور راجہ ریاض احمد اس حکومت میں سینئر وزیر تھے۔ بعد میں جب مسلم لیگ(ن) نے پیپلزپارٹی کو حکومت سے الگ کیا تو راجہ ریاض احمد اسمبلی میں دوسری بڑی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ہونے کے ناطے اپوزیشن لیڈر بنے تھے۔ الیکشن 2013ءکی انتخابی مہم میں نہ صرف ان کو خود کو شکست ہوئی بلکہ پیپلزپارٹی پورے ضلع فیصل آباد سے صاف ہو گئی۔ زیادہ تر نشستوں پر اصل مقابلہ مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے امیدواروں میں ہوا اور میاں منطور احمد وٹو کو سب سے پہلے راجہ ریاض کی سمت کو درست کرنا ہو گا۔ الیکشن 2002ءمیں جو جنرل پرویزمشرف کے دور میں ہوئے تھے اور جن انتخابات میں مسلم لیگ(ق) کے امیدواروں کو کامیابیوں سے ہمکنار کرانے کیلئے ضلعی اور صوبائی حکومتوں کا اثرورسوخ اور وسائل بھی استعمال ہوئے تھے، اس وقت پیپلزپارٹی پنجاب کے جنرل سیکرٹری کا عہدہ فیصل آباد سے 1993ءکی پنجاب کابینہ کے ایک رکن بلکہ پیپلزپارٹی کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر رانا آفتاب احمد خاں کے پاس تھا اور جو خود بھی 2002ءکے الیکشن میں کامیابی سے ہمکنار ہوئے تھے اور فیصل آباد ضلع اور فیصل آباد شہر سے بعض دوسرے ارکان کو بھی قومی و صوبائی اسمبلیوں میں لیکر گئے تھے کیا پاکستان پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت نے کبھی سوچا کہ رانا آفتاب احمد خاں کو الیکشن 2008ءمیں کس نے شکست دلائی تھی۔ اگر وہ کامیاب ہو کر پنجاب اسمبلی میں پہنچتے تو راجہ ریاض احمد کو پنجاب اسمبلی میں پیپلزپارٹی کا پارلیمانی لیڈر کون بناتا اور کیوں؟ رانا آفتاب احمد خاں کو الیکشن 2008ءمیں مسلم لیگ(ق) کے نامزد امیدوار کے مقابلے میں ہرانے کی سازش میں خود رانا آفتاب احمد کا الزام ہے کہ کسی نہ کسی حد تک خود راجہ ریاض احمد کا ہاتھ کارفرما تھا اور پھر جب سمندری کے حلقہ 59کی نشست ضمنی الیکشن کیلئے خالی ہوئی تھی تو رانا آفتاب احمد خاں کو وہاں پیپلزپارٹی کے امیدوار کے طور پر نامزد کرنے کی بجائے لاہور سے قاسم ضیاءکو وہاں کس نے امپورٹ کرایا اور یہ پارٹی ٹکٹ رانا آفتاب احمد خاں کو کیوں نہیں دیا گیا۔ یہ سب کچھ تحقیق طلب ہے اور یہ بات بھی تحقیق طلب ہے کہ میاں قاسم ضیاءنے پی پی59 کا ضمنی الیکشن جیتنے کے باوجود پانچ برسوں میں ایک مرتبہ بھی اپنے انتخابی حلقہ کا کیوں دورہ نہیں کیا اور انکے اپنے علاقہ کا دورہ نہ کرنے کا نتیجہ کیا نکلا کہ وہ رانا فاروق سعید خان جنہوں نے الیکشن 2008ءمیں پیپلزپارٹی باغی امیدوار کی حیثیت سے قومی و صوبائی اسمبلی دونوں کا الیکشن جیت لئے تھے انہیں الیکشن 2013ءمیں عبرتناک شکست کا سامنا کیوں کرنا پڑا۔ میاں منظور وٹو، راجہ ریاض اور رانا آفتاب کی صلح کروا کر بھی پنجاب میں پیپلزپارٹی کی تنظیم نو کے حوالہ سے انکی مشاورت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی صفوں میں عوام میں اچھی شہرت رکھنے والے متعدد افراد موجود ہیں لہٰذا پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر میاں منظور وٹو ان سب کو ساتھ لیکر چلیں، ان سب کی مشاورت سے پارٹی کی تنظیم نو کریں تو پیپلزپارٹی کو آئندہ انتخابات سے پہلے بہت حد تک فعال کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت پیپلزپارٹی پورے پنجاب میں تیسری بڑی جماعت ہے۔ اگر وہ پیپلزپارٹی سے روٹھ کر تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) میں جانیوالوں کو واپس لے آئیں تو پیپلزپارٹی خود کو بہت حد تک خود کو زندہ کر سکتی ہے۔
پیپلزپارٹی پنجاب کی تنظیم نو۔۔۔!
Feb 09, 2014