پیر ‘ 19 ربیع الثانی‘ 1436ھ‘ 9 فروری 2015ئ

سینٹ الیکشن: جے یو آئی نے مولانا فضل الرحمن کے بھائی اور سمدھی سمیت 4 نام پارلیمانی بورڈ کو بھجوا دیئے!
تو جناب اب کیا فرماتے ہیں ”رہنمائے سیاست در بیچ اس مسئلہ کے“ یہاں تو سب بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہیں بلکہ ڈبکیاں لگاتے ہیں۔ اب جے یو آئی نے 4 نام سینٹ الیکشن کیلئے جو اپنے پارلیمانی بورڈ کو بھجوائے‘ ان میں ایک پارٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے محترم بھائی جان ہیں‘ دوسرا ان کا سمدھی ہے باقی دو نام بھی یقیناً بے نام تو نہیں ہوں گے‘ وہ بھی تگڑے بندے ہوں گے۔ اب اصل میں یہی وہ مساوات ہے جس کا درس ہماری تمام سیاسی جماعتیں دیتی نظر آتی ہیں۔ اگر دو اپنوں کو ٹکٹ دیا تو کیا ہُوا دو پرائے بھی ٹکٹ کے حقدار ٹھہرے۔ یہاں تک تو سب ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے مگر ادھر دوسری طرف تحریک انصاف کے 14 ارکان اسمبلی اپنا گروپ بنا کر اپنے سینٹر لانے کا سوچ رہے ہیں۔ گویا تحریک انصاف سینٹ کے ٹکٹوں کے مسئلہ پر ایک نئے بحران سے دوچار ہے۔ یہی حال پیپلز پارٹی کا ہے جہاں بلاول پہلے ہی ناراض لندن میں بیٹھے ہیں تو دوسری طرف مخدوم امین فہیم بھی اس بندر بانٹ میں شریک ہونے سے کنی کترا گئے ہیں۔ باقی رہ گئی مسلم لیگ (ن) تو وہاں لائن لگی نظر آ رہی ہے اور صورتحال کچھ یوں ہے ....
ٹکٹ کٹاﺅ لائن بناﺅ
کنے کنے جانا اے بلو دے گھر
لے دے کر رہ جاتی ہے ۔ (ق) لیگ‘ وہ بھی چاروں صوبوں میں جہاں جہاں اس کی باقیات پائی جاتی ہیں‘ مل جل کر اپنے امیدوار لانے کی سعی کر رہی ہے۔ دیکھنا ہے کہ اب کون کون سے چہرے سینٹ کی زینت بنتے ہیں ویسے پہلے جو نیک روحیں سینٹ کی ممبر تھیں انہوں نے کونسا کوئی معرکہ سر کیا ہے کہ ان کو یاد رکھا جائے۔
٭....٭....٭....٭
پاکستان کرکٹ ٹیم کے لئے ایک اور دھچکا، محمد حفیظ بھی انجری کے باعث ٹیم سے باہر!
ابھی ورلڈ کپ شروع ہونے میں دن ہی کیا رہ گئے ہیں کہ ہماری کرکٹ کی ناﺅ پے درپے دھچکوں کی زد میں آ کر ہچکولے کھاتی نظر آنے لگی ہے۔ سعید اجمل کی باﺅلنگ درست قرار پائی جانے کے باوجود وہ ٹیم میں شامل نہیں ہو سکیں گے حالانکہ ان کے ایکشن کی درستگی کے بعد شائقین نے زبردست طریقے سے خوشی بھی منائی۔ جنید خان انجری کے باعث ٹیم میں جگہ نہ پا سکا اور اب وہ ایام فراغت میں سہرے سجا کر دولہا بنیں گے، گویا وہ اپنی زندگی کا اہم ترین میچ کھیلنے جا رہے ہیں۔ ابھی یہ غم کم نہیں ہوئے تھے کہ اب محمد حفیظ بھی ٹیم سے باہر ہو گئے ہیں انہیں بھی انجری کے باعث ڈاکٹروں نے 3 ہفتے آرام کا مشورہ دیا ہے۔ اب 3 ہفتے بعد تو راوی چین ہی چین لکھے گا پھر ان کے تندرست ہونے سے ٹیم پر کیا اثر پڑنا ہے۔
یہ تو کھلاڑیوں کی فٹنس کے مسائل ہیں۔ دوسری طرف نیوزی لینڈ کے خلاف سارے میچ ہارنے کے بعد ظاہر ہے کھلاڑیوں کا مورال بلند ہونے سے تو رہا۔ ویسے بھی ہمارے کھلاڑیوں کا مورال بعض میچوں میں ازخود بلند اور بعض میچوں میں ازخود نیچے گر جاتا ہے جس کے بارے میں ہمارے حاسدین طرح طرح کی افواہیں پھیلا کر کرکٹ شائقین کا بھی مورال گرانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمارے ماہرین کرکٹرز بھی اس نوعیت کے بیان دے دے کر پہلے سے ہی ہمارے حوصلے پست کر رہے ہیں کہ پاکستان کی ٹیم ماٹھی ہے، فلاں کھلاڑی شامل نہیں، فلاں شامل کیوں ہے، کوارٹر فائنل تک چلی ہی جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ ان حالات میں کوئی بھی پاکستانی اس وقت اپنی ٹیم کی فتح کا خواب تک نہیں دیکھ پا رہا۔ دیکھنا ہے کہ اب کون سا معجزہ ٹیم کو ورلڈ کپ میں اور کسی سے نہ سہی بھارت سے ہی جتوا کر قوم کو خوش کر دیتا ہے۔ ورنہ اس بار تو تمام ستارہ شناس بھی مہر بلب ہیں۔ ہونٹ سی کر بیٹھے ہوئے ہیں۔
٭....٭....٭....٭
عمران خان کا خیبر پی کے میں ایک ارب پودے لگانے کا اعلان!
خدا کرے یہ اعلان صرف اعلان تک ہی محدود نہ رہے حقیقت میں اسے عملی جامہ پہنایا جائے۔ اس وقت ملک میں جس طرح جنگلات کا صفایا ہو رہا ہے اور ٹمبر مافیا ارب پتی بنتا جا رہا ہے اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہمارا ملک سرسبز جنگلات سے محروم ہو کر تھر یا چولستان نہ سہی بلوچستان جیسا بنجر ضرور ہو جائے گا اور اس کے نتیجے میں جو قدرتی آفات کا نزول ہو گا اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ہے۔ شدید طویل گرمیاں، برسات سے محرومی، اگر ہو بھی تو سیلاب کی تباہی، زلزلے یہ سب انہی جنگلات کی موت کا ماتم بن کر پوری قوم کرتی پھرے گی۔
اس لئے ابھی وقت ہے کہ ہم ایسے ملک دشمن انسان دشمن اور ماحول دشمن عناصر کے خلاف بھی ضرب عضب کے انداز میں کوئی سخت قدم اٹھائیں تاکہ ہمارا مستقبل اُجاڑنے والوں کو زمانہ حال میں ہی نیست و نابود کر کے ہم اپنے ملک کو بنجر ہونے سے بچائیں۔
ویسے تو ہر سال پنجاب، سندھ، بلوچستان میں بھی شجرکاری کے نام پر بڑی مہمیں چلائی جاتی ہیں۔ ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات میں کروڑوں روپے کے اشتہارات دئیے جاتے ہیں، ملک کو سرسبز اور خوشحال بنانے کے دعوے کئے جاتے ہیں مگر افسوس ہے کہ عملاً اس طرح نہیں ہوتا ورنہ جس حساب سے ہر سال اربوں درخت لگائے جاتے ہیں ہمارا پورا ملک اس وقت سرسبز ہو جاتا مگر ایسا کہیں نظر نہیں آتا۔ اربوں روپے کا بجٹ محکمانہ بددیانتی اور کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔ کشمیر کے ممتاز روحانی پیشوا نور الدین ریشی نے کیا خوب کہا تھا ”جنگلات آباد ہوں گے تو خوراک کے ذخائر بڑھیں گے“ ہم تو خود اپنے ہاتھوں سے اپنے خوراک کے ذخائر مٹانے پر تُلے نظر آتے ہیں۔
اگر ہر سال لگائے جانے والے پودوں کی افزائش اور نشو و نما ایمانداری سے کی جائے تو واقعی ہمارا ملک سرسبز و خوشحال ہو سکتا ہے۔ یہ تو حکومتی کام ہے اس سے ہٹ کر اگر ہر شخص اپنے پیارے کے نام پر ایک درخت لگائے اور اس کی حفاظت کرے تو پورے ملک میں پیاروں کی بہار اور گھنی چھاﺅں تلے بہت سے لوگ بیٹھ کر ان کی چاہتوں کا فیض پا سکتے ہیں۔
٭....٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن