فقیر تماشائے اہل کرم دیکھنے شہر اقتدار کیا گئے کہ پنجاب ہاﺅس کے درودیوارہمارے اور مواصلات کے درمیان تن کر کھڑے ہو گئے۔ کبھی ہمارے دماغی سگنل غائب اور کبھی موبائل فون سے صوتی لہروں کا روٹھ جانا۔ کیا حال سنائیں فقیروں کے دل کا اور شہر اقتدار کے مشقِ ستم کا ہم
جو ترا محرم ملا اُس کو نہ تھی اپنی خبر
شہر میں تیرا پتا کس کس سے پوچھا ہے نہ پوچھ
تمنا تھی اس دفعہ وزیرمملکت برائے تعلیم و تربیت سے ملاقات ہو جاتی‘ لیکن حضور تعلیم و تربیت کے سنگ سنگ وزارت داخلہ کے بھی سٹیٹ منسٹر ہیں۔ بے چارے کیا کیا کریں اور کہاں کہاں جائیں؟؟ اوپر سے سانحہ پشاور کے بعد وزارت داخلہ اور وزارت تعلیم ایک ”صفحہ“ پر آگئے ہیں۔ اب ہر درسگاہ کو وزارت تعلیم کے بجائے وزارت داخلہ کی نگاہ سے دیکھنا پڑتا ہے۔ کے پی کے سے متعلقہ وزراءمشتاق غنی (ہائر ایجوکیشن)‘ عاطف خان (سکولز) سیکرٹری محمد علی اور افضل لطیف اکٹھے گھومتے ہیں یا الگ الگ‘ نہیں معلوم۔ پھر بھی نہیں پتہ کہ کے پی کے سیکرٹری تعلیم زیادہ اہم ہیں یا وزرائے تعلیم۔ لیکن پنجاب کا بحرحال یہ عالم ہے کہ وزیرتعلیم سکولز ایجوکیشن ہمراہ ذمہ داری ہائر ایجوکیشن اور سپورٹس رانا مشہود اور سیکرٹری ہائر ایجوکیشن اسلم کمبوہ مسلسل دوروں پر ہیں۔ نہ جانے ان لوگوں کو فکرِ تعلیم و تربیت ہے کہ نہیں‘ لیکن تعلیمی اداروں کی حفاظت کے جائزے کیلئے بہرحال شبانہ روز محنت کر رہے ہیں۔ اللہ کرے کہ تعلیم کی بھی اس طرح حفاظت کرتے بھی کبھی نظر آئیں۔ سندھ کے وزیرتعلیم نثار کھوڑو اور ان کے ہم نوا کو تو پھر سے ”مشرفِ نگاہ“ سے خطرہ ہے۔ وہ بے چارے ان دنوں تعلیم کی فکر سے دوچار ہیں نہ تعلیم گاہوں کی‘ پریشان ہیں تو وزارت سے کیونکہ پیر پگاڑا‘ ایم کیو ایم اور مشرف کا ٹرائیکا کہیں پی پی پی کی چولیں نہ ہلا دے۔ بلوچستان والوں کو پہلے ہی تعلیم کی فکر کم اور سرداریوں کی زیادہ ہوتی ہے۔ کسی زمانے میں وہاں سے محترمہ زبیدہ جلال کو تعلیمی فکر ہوا کرتی تھی‘ لیکن وقت گزرنے کیساتھ ساتھ وہ بھی تعلیم کی رہیں نہ تربیت کی بس سیاست ہی کی ہوکر رہ گئی ہیں۔ واضح رہے کہ دور مشرف کی (ق) لیگی وزیر نے سیاست کی اڑتی چڑیا کے پر گن کر 28 مارچ 2013ءمیں الیکشن سے ذرا قبل مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور الیکشن 13ءمیں کرن حیدر کو سپورٹ کرتے ہوئے ممبر قومی اسمبلی (خواتین نشست) منتخب کرایا۔ اب ہم زبیدہ جلال وغیرہ کے حوالے سے یہ تو یاد نہیں کرائیں گے نا بدلتا ہے آسماں تو رنگ بدلتا ہے انسان کیسا کیسا۔ ناصر کاظمی نے درست ہی کہا
گئے دنوں کی لاش پر پڑے رہو گے کب تلک
الم کشو اُٹھو کہ آفتاب سر پر آگیا
وفاقی وزیرمملکت برائے تعلیم و تربیت انجینئر بلیغ الرحمن کی بات بیچ ہی میں رہ گئی کہ پنجاب ہاﺅس کے سگنلز کی بے وفائی کے سبب ملاقات نہ ہو سکی۔ انہوں نے جواباً وقت اور جگہ کا بذریعہ وٹس ایپ بتا دیا‘ لیکن جب تک پیغام موصول ہوا تب تک وزیر محترم لاہور پہنچ کر امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے ساتھ ایوان اقبال میں غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کی تقریب بھی انجوائے کر چکے تھے۔ لیں ہم نہ سہی ہمارا شہر تو خوش قسمت ٹھہرا کہ آخر لاہور کی فضاﺅں نے رانا مشہود کے علاوہ بھی کسی کے منہ سے تعلیم اور سیاست کی اکٹھی باتیں سنیں۔ اللہ کرے کہ تعلیم پر سیاست غالب آنے کے بجائے کبھی تعلیم بھی سیاست پر غالب آجائے۔ تعلیم کے غالب آنے کا خواب ہم جاگتی آنکھوں سے اس سٹیج پر بھی بیٹھے دیکھتے رہے جس پر ایک دن قبل بلیغ الرحمن جلوہ افروز تھے۔ دو روزہ (3 اور 4 فروری 2015ئ) کی یہ تعلیمی بزم علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں سجی۔ اس کا اہتمام اکیڈمکس ڈویژن آف ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان نے کیا۔ ایچ ای سی کی اس نصاب سازی کی خصوصی محفل کی گفت و شنید میں بلیغ الرحمن کی بطور خاص دلچسپی سے بہرحال ایک امید سی پیدا ہوئی اور ایک دفعہ پھر ہم شجر سے پیوستہ ہو گئے اور امید بہار قلب و ذہن میں رکھ لی ۔ کرکولم ڈویلپمنٹ کے اس سمپوزیم میں ڈاکٹر مختار احمد (چیئرمین ایچ ای سی) کی دلچسپی بھی قابل ستائش رہی۔ دو روزہ سمپوزیم کی اختتامی تقریب میں راقم کو یہ اچھا لگا کہ سابق وائس چانسلر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ڈاکٹر محمود الحسن بٹ اور موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر شاہد صدیقی گاہے بگاہے تعلیمی معاملات کو زیربحث لائے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر مختار نے اختتامی کلمات میں ڈاکٹر شاہد صدیقی کے استفادہ کرنے اور ڈاکٹر محمود الحسن بٹ کے تجربات کی روشنی میں مشوروں سے نوازنے کو سراہا۔ ملک بھر سے آئے ماہرین تعلیم کو مخاطب کرتے ہوئے چیئرمین ایچ ای سی نے کہا کہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے سے بہتر ہوتا ہے کہ نئے اور پرانے مل کر تعلیم و تحقیق کیلئے کچھ کریں۔ ہمیں مفاد دوست کے بجائے تعلیم دوست بننا ہوگا جس کی عمدہ مثال ڈاکٹر صدیقی اور ڈاکٹریٹ کے مابین خوش گفتاری باہمی مفاد و قومی مفاد کی شکل میں سامنے ہے۔ بہرحال دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں وزیرتعلیم اور چیئرمین ایچ ای سی سے تعلیم اور قوم کس قدر استفادہ کر پاتے ہیں۔ جہاں تک ڈاکٹر شاہد صدیقی کا تعلق ہے کہ صاحب علم‘ محنتی اور نستعلیق شخصیت گردانے جاتے ہیں۔ اہل علم کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ وہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کو آزمائشوں سے نکال لیں گے۔ بہرحال ہم نے تو یہاں تک سن رکھا ہے کہ کچھ پیسے والے اس کے پرائیویٹائز ہونے کے خواب بھی دیکھ رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کا لگایا ہوا یہ پودا جہاں پھلدار ہے‘ وہاں شجر سایہ دار بھی۔ یہ جنوبی ایشیا کی پہلی فاصلاتی تعلیمی درسگاہ تھی۔ یہ آج 13 لاکھ طلباءکی تعلیمی ضروریات کو اپنی گود میں بٹھا کر علمی روشنی سے پوری کر سکتی ہے۔ بنیادی تعلیم سے پی ایچ ڈی تک کی اس کی خدمات انقلابی ہیں‘ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ تحقیقی میدان میں وزارت تعلیم اور ایچ ای سی اس کو حکمت اور شفقت بھری گود میں لیں۔
شہر اقتدار میں اس دفعہ ایوان وزیراعظم جانے کا موقع ملا تو میں نے انتظامیہ سے درخواست کی کہ اس عظم الشان گھر کے باسی سے ملاقات ممکن نہیں کیونکہ وہ کسی دورے پر تھے لہٰذا ہماری ملاقات اس ہاﺅس کی لائبریری سے تو کرا دی جائے۔ ہم اس طرح اس مکان کے مکین سے آدھی ملاقات سمجھ لیںگے۔ یہ کتابیں بڑی وفادار ہوتی ہیں۔ گھر کا مالک ذرا اِدھر اُدھر ہو جائے تو یہ باقی لوگوں کی طرح ڈھیلی ہوتی ہیں نہ اِدھر اُدھر۔ میاں نوازشریف کو رب کعبہ نے تیسری دفعہ اس گھر میں رہائش پذیر ہونے کا اعزاز بخشا ہے۔ تزئین و آرائش کے علاوہ دیگر دفتری معاملات میں بھی ربط اور تربیت کے عناصر بہتر ہیں بلکہ ماضی سے بہت بہتر ہیں۔ لائبریری میں قومی‘ بین الاقوامی‘ علمی و ادبی‘ تاریخ اور شہرہ آفاقی کتب تو تھیں‘ لیکن محسوس یہ ہوا کہ ان کی قسمت میں پڑھا جانا کم ہی ہے۔ پھر بھی شکر ہے کہ کتب کا بسیرا تو یہاں ہے۔ کتب خانے سے ذرا باہر نکلے تو ساتھ ہی وزیراعظم آفس پرنسپل سیکرٹری کا دفتر تھا۔ سابق چیف سیکرٹری پنجاب اور موجودہ سیکرٹری ٹو وزیراعظم جاوید اسلم سے ہیلو ہائے ہوا تو فوادحسن فواد (بقول عطاءالحق قاسمی کچھ خواص) انہیں مستقبل کا مسعود محمود قرار دیتے ہیں۔ یاد آئے.... فواد حسن فواد اب تو ایڈیشنل سیکرٹری ٹو وزیراعظم ہیں۔ ماضی میں یہ پنجاب کے ناکام ہیلتھ سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں۔ ینگ ڈاکٹرز کے معاملات کو خراب کرنے میں ان کا ”مثالی“ کردار تھا۔ ہم تو یہ بھی کہتے ہیں کہ وزیراعلیٰ شہبازشریف کو بیور کریٹ توقیر شاہ نے ہمیشہ آزمائش میں ڈالا تھا اور وزیراعظم نوازشریف کو فوادحسن فواد نے آزمائش میں رکھنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ صاحب کے حوالے سے معروف ہے کہ وہ اپنے آپ کو وزیراعظم سے کم باور نہیں کراتے۔ طالبان سے مذاکرات کرنے والی حکومتی کمیٹی کے ممبر ہونے کے ناطے سے بھی ان کی کارکردگی انتہائی مایوس کن تھی۔ اس کا پتہ اسی کمیٹی کے ایک سابق رکن میجر عامر نے بھی خواص و عوام کو خوب دیا تھا۔ کم گریڈ کے ساتھ بڑے گریڈوں پر ”خوب کھیلنے“ کے تجربہ سے بھی مالا مال ہیں۔ پھر بھی تخت و تاج کے قریب تر رہنا اس کا مقدر ہو تو ”کوئی“ کیا کرے! بہرحال ہم نے تو ماضی میں بھی استدعا کی تھی جہاں پنجاب سے وزیراعلیٰ ہاﺅس سے ڈاکٹر توقیر شاہ کو فارغ کیا گیا‘ انہیں بھی وزیراعظم ہاﺅس سے کہیں اور بھیج دیا جائے تو بہتر ہوگا۔ اگر انہیں وزیراعظم ہاﺅس میں ہی جلوہ افرز رہنا ہے تو استدعا ہے کبھی کبھی ملحقہ لائبریری میں جا کر اقوام کے عروج و زوال کی تاریخ ہی پڑھ لیں۔ یہ خوش قسمت ہیں تو قوم کیلئے بھی باعث برکت بنیں۔ محترم وزیراعظم کی خدمت میں بس یہی کہیں گے کہ
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
بیورو کریٹس یقینا انتظام و انصرام کیلئے ضروری ہیں‘ لیکن ہم محترم وزیراعظم سے یہ بھی استدعا کریں گے کہ اپنے پرانے مخلص دانشور احباب ‘ ماہرین تعلیم‘ وائس چانسلر حضرات اور چیئرمین ایچ ای سی کے علاوہ وزیرمملکت برائے تعلیم و تربیت کو بھی کبھی کبھی چند ‘ صرف چند لمحے‘ کہیں اور نہیں ایوان وزیراعظم کی لائبریری میں براہ راست دیدیا کریں۔ اللہ بھلا کرے گا۔