اسلام آباد (اے این این+ بی بی سی) وفاقی حکومت نے کہا ہے کہ 2007ء میں لال مسجد واقعہ سے متعلق بنائے گئے کمشن کی رپورٹ عام کرنے سے اس کمشن کے سامنے پیش ہونے والے افراد کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں اور ایسا کرنا کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے یہ حکومتی موقف سپریم کورٹ کے جج جسٹس اقبال حمیدالرحمٰن کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے سامنے پیش کیا۔ لال مسجد فاؤنڈیشن کے وکیل طارق اسد کا کہنا تھا کہ وفاقی شرعی عدالت کے جج کی سربراہی میں بننے والے اس عدالتی کمشن کی رپورٹ اور اس میں پیش ہونے والی شہادتوں کو عام کیا جائے تاکہ لوگوں کو حقائق کے بارے میں آگہی حاصل ہو سکے۔ معلومات تک رسائی ہر شہری کا حق ہے اور کسی کو بھی اس حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ اس عدالتی کارروائی کے بعد کمشن نے جو رپورٹ پیش کی تھی وہ 30 ہزار صفحات پر مشتمل ہے اور ان میں سے زیادہ تر مواد عام نہیں کیا گیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ جن افراد نے کمیشن کے سامنے بیان دیا ہے اگرچہ گواہوں کے تحفظ کے بل کے تحت اْن کے تحفظ کو یقینی بنایا گیا ہے لیکن اگر اْن کے نام عام کر دیے گئے تو اس سے اْن کی جان کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کے اس جواب کے بعد لال مسجد فاونڈیشن کے وکیل کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔ مدعی کے وکیل طارق اسد نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اس مقدمے کے مدعی ہارون الرشید ہیں جو مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز کی طرف سے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو معاف کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ بھائی غازی عبدالرشید کے بیٹے ہارون الرشید سابق فوجی صدر کے خلاف قتل کے مقدمے میں درخواست گزار ہیں۔ باپ کے قاتل کو مقتول کا بیٹا ہی معاف کر سکتا ہے نہ کہ مقتول کا بھائی۔ مولانا عبدالعزیز کا پرویز مشرف کو معاف کرنے کا اعلان اْن کا ذاتی فیصلہ ہے اور اس کا عبدالرشید غازی کے مقدمے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آن لائن کے مطابق لال مسجد شہداء فائونڈیشن نے مولانا عبدالعزیز کی جانب سے سابق صدر مشرف کو معافی دینے کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے مشرف، شوکت عزیز اور کابینہ کے دیگر ارکان کے خلاف مقدمات درج کرانے کا اعلان کر دیا ہے۔ مولانا عبدالعزیز کے پاس لال مسجد اپریشن کے ذمہ داروں کو معاف کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ عبدالرشید غازی شہید کے بیٹے ہارون الرشید کو یرغمال بنایا گیا ہے مولانا عبدالعزیز حکومتی دبائو برداشت نہیں کر سکے اور معافی کا اعلان کر دیا ہے جو کہ آئین قانون اور شریعت کے خلاف ہے۔