’’طاہر اُلقادری اور گُلوکار غُلام علی؟‘‘

پاکستانی گلوکار غلام علی بھارت جا کر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں کہیں اُن کی پذیرائی ہوتی ہے اور کہیں اُن کی تقریب کے خلاف احتجاج۔ ہندوئوں کے تباہی و بربادی کے دیوتا ’’شِو /شِوا‘‘ کے نام پر قائم کی گئی آنجہانی بال ٹھاکرے کی انتہا پسند تنظیم ’’شِوسینا‘‘ (شِو کی فوج) غلام علی کے دورۂ بھارت کا بہت بُرا مناتی ہے۔ گلوکار غلام علی اِن دنوں بھی بھارت میں ہیں۔ شِوسینا کی طرف سے اُن کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔ کئی دِن سے خبریں آرہی تھیں کہ ’’شیخ اُلاسلام‘‘ علاّمہ طاہر اُلقادری بھی بھارت کے دَورے پر تشریف لے جا رہے ہیں‘‘۔
اسلام آباد میں ’’نوائے وقت‘‘ کے ایک دیرینہ قاری مرزا عزیز بیگ نے جو عُمر میں علاّمہ طاہراُلقادری سے بڑے ہیںاور سیاست میں اُن کی ’’اُٹھان اور گِراوٹ‘‘ کو خوب جانتے ہیں، کل مجھ سے ٹیلی فون پر گلہ کِیا کہ ’’طاہر اُلقادری بھارت کے دورے پر جا رہے ہیں لیکن آپ اُس کا نوٹس ہی نہیں لے رہے؟۔ انہیں تو بھارت کا دورۂ کرنے کی اِس طرح دعوت د ی گئی ہے جِس طرح 1526ء میں میواڑ کے رانگا سانگا نے فرغانہ کے ظہیر اُلدّین بابّر کو ابراہیم لودھی کی سلطنت پر حملہ کرنے کی دعوت دی تھی!‘‘۔ مَیں نے القادری صاحب کے دورۂ بھارت کی خبر پڑھی تو مجھے تسلی ہُوئی کہ موصوف گلوکار غلام علی کے پیٹ پر لات مارنے کے لئے بھارت نہیں جا رہے بلکہ مقصد کچھ اور ہے۔ یہ درست ہے کہ بابا بُلّھے شاہ بھی ’’القادری‘‘ تھے اور انہوں نے اپنے روٹھے ہُوئے مُرشد کو منانے کے لئے ؎
’’تیرے عِشق نچایا کرکے تھّیا‘ تھّیا‘‘
کا مظاہرہ بھی کِیا تھا لیکن علاّمہ طاہر اُلقادری کی گلوکاری اور ’’کتھا کلی‘‘ کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا البتہ مَیں نے ایک بار لکھا تھا کہ ’’شیخ اُلاسلام‘‘ اعضاء کی شاعری کرتے ہیں اور اپنے مُنہ سے جھاگ نکال کر مخالفین کو بددُعائیں دیتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ القادری صاحب کی بددعائوں سے اُن کے مخالفین کا کچھ نقصان نہیں ہُوا‘‘۔ گلوکار غلام علی خوش قِسمت ہیں کہ وہ علاّمہ صاحب کی بددُعائوں سے محفوظ ہیں۔ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بننے کے بعد اور اُس سے پہلے بھی مولانا فضل اُلرحمن کئی بار بھارت گئے لیکن انہیں بھارت کی طرف سے "State Guest" (ریاست کا مہمان) کا درجہ نہیں دِیا گیا۔ حالانکہ مولانا صاحب کے بزرگ ’’گاندھی نوازی‘‘ کی وجہ سے بھارت کی تقسیم کے مخالف تھے۔ علاّمہ طاہر اُلقادری قیام پاکستان کے بعد 9 فروری 1951ء کو جھنگ میں پیدا ہُوئے تھے۔ بقول مرزا عزیز بیگ ’’القادری صاحب کے والد کا نام فریداُلدّین‘‘ تھا جو مجاہدِ مِلّت مولانا عبداُلستار خان نیازی کے مُرید تھے۔ القادری صاحب بڑے ہُوئے تو اُنہوں نے اپنے والد کو ’’فرید مِلّت‘‘ کا خطاب دِیا تھا۔ مولانا عبداُلستار خان نیازی کی سفارش پر ہی علاّمہ القادری کو پہلی نوکری مِلی تھی‘‘۔
علاّمہ القادری نے ادارہ ’’منہاج اُلقرآن‘‘ اور پاکستان عوامی تحریک کے چیئرمین کی حیثیت سے صدر زرداری اور وزیراعظم نواز شریف کے دَور میں اسلام آباد میں دھرنوں کی قیادت کر کے پاکستان میں دو بار ’’انقلاب‘‘ لانے کی جدوجہد کی لیکن عوام اور انقلاب نے تعاون نہیں کِیا۔ صدر زرداری کی ہدایت پر وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے اُن سے ’’میثاقِ جمہوریت 2 نمبر‘‘ کِیا۔ اِس پر ’’انقلاب‘‘ علاّمہ صاحب سے ناراض ہو کر کسی ایسے ملک کی طرف چلا گیا جہاں اُس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ علاّمہ صاحب کا دوسرا دھرنا ناکام ہُوا۔ اِس لئے کہ عمران خان کے دھرنے کو گرمانے میں گلوکار عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی اُن کے ساتھ تھے۔ نہ جانے کیوں گلوکار اور گلوکارائیں بھی علاّمہ القادری کے ’’انقلاب‘‘ سے دور بھاگتی ہیں۔ عجیب اتفاق ہے کہ گلوکار غلام علی جب اپنا دَورہ مکمل کر کے وطن واپس لوٹیں گے تو القادری صاحب کا دَورہ بھارت شروع ہو گا۔ علاّمہ طاہر اُلقادری کے مجوزہ دَورہ بھارت پر اگر جناب فیض احمد فیضؔ کے ایک مِصرع میں اگر لفظ ’’مقتل‘‘ کے بجائے ’’بھارت‘‘ جڑ دِیا جائے تو یوں ہوگا ؎
’’جِس دھج سے کوئی، بھارتؔ کو گیا‘ وہ شان سلامت رہتی ہے‘‘
خبر میں بتایا گیا ہے کہ ’’طاہر اُلقادری کے دَورۂ بھارت کے دَوران اُن کے اعزاز میں منعقدہ تقاریب/ پروگراموں میں شرکت کی خواہشمند۔ وزیراعظم نریندر مودی سمیت اُن کی کابینہ‘ راجیہ سبھا اور لوک سبھا کے 62 لاکھ‘ 70 ہزار 850 شخصیات کو دعوت نامے جاری کئے گئے ہیں اور اُن کی سکیورٹی کے لئے 5 بُلٹ پروف گاڑیوں سمیت‘ استقبالیہ قافلے کے ساتھ ہزاوں گاڑیاں ہُوں گی‘‘۔ خبر میں یہ تو بتایا گیا ہے کہ ’’مقامی تنظیم نے علاّمہ القادری کے استقبال کے لئے تیاریاں مکمل کرلی ہیں‘‘۔ لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ تنظیم دِلّی / ممبئی کی ہے یا اسلام آباد کی؟ اور امریکی صدر اوباما سے بھی بڑے دورۂ القادری صاحب کے بھاری اخراجات کون برداشت کرے گا؟۔ علاّمہ القادری کے مُریدین؟۔
خبر کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ’’بھارتی حکومت ( اپنے مُلک میں ) دہشت گردی کی روک تھام کے لئے علاّمہ طاہر اُلقادری کا تیار کردہ نصاب (Syllabus) دِینی مدرسوں میں رائج کرنے کو تیار ہو گئی ہے اور وہ (یعنی حکومت) القادری صاحب کے دَورۂ بھارت کے دَوران اُن سے مذاکرات کرے گی‘‘۔ اب علاّمہ القادری اور کیا کرتے؟ جب پاکستانی مسلمان حکمرانوں کے نصیب میں دینی مدارس میں ’’القادری نصاب‘‘ رائج کرنا نہیں لکھا اور انہوں نے یہاں ’’القادری انقلاب‘‘ کو بھی آنے سے روکا تو علاّمہ صاحب شری نریندر مودی کی بھارت ماتا کے بھاگ جگانے کی کوشش کیوں نہ کرتے؟۔ عین ممکن ہے کہ القادری صاحب کے اعزاز میں منعقدہ کسی استقبالیہ تقریب میں کوئی سِکھ گُلوکارہ ملکۂ ترنم نور جہاں کا گایا ہُوا یہ پنجابی گیت نہ گا دے جِس کا مُکھڑا ہے ؎
’’سیّونی میرا ماہی‘ میرے بھاگ جگاون آگیا‘‘
گلوکار غلام علی، اگر علاّمہ القادری کے ساتھ بھی ہوتے تو وہ انہیں ’’ماہی‘‘ (محبوب) قرار دے کر اور یہ گیت گا کر اپنی ساکھ ہرگز خراب نہ کرتے۔ علاّمہ طاہر اُلقادری کے 22 سال پہلے کے بیان کے مطابق کہ ’’مجھے سرکارِ دو عالمؐ نے خواب میں بشارت دی تھی کہ ’’اے طاہر اُلقادری! تمہاری عُمر بھی میری عُمر کے برابر 63 سال ہو گی‘‘۔ اپنے اس بیان کے مطابق القادری صاحب کو 63 سال کی عمر میں 19 فروری 2014ء کو اس جہان سے رخصت ہو جانا چاہیے تھا۔ مارچ 2016ء میں جب موصوف بھارت تشریف لے جائیں گے اور اگر کسی بھارتی مسلمان صحافی نے اُن سے پُوچھ لِیا کہ ’’اے کینیڈین شیخ اُلاسلام! تم اب تک زندہ کیوں ہُو؟‘‘ تو کیا بابا بُلّھے شاہ ’’القادری‘‘ کا یہ مِصرع سُنا کر اُن کی جان چھوٹ جائے گی کہ ؎
’’بُلّھے شاہ! اساں مرنا ناہِیں‘ گور پیا‘ کوئی ہور!‘‘
یہ درست ہے کہ بعض لوگ ناکامی کے بعد ’’ زندہ درگور‘‘ ہو جاتے ہیں ۔ جھوٹ اور دوسرے گناہوں سے نجات تو توبہ کے بعد ہی ملتی ہے۔ اُستاد شرفؔ نے کہا تھا…
’’جُھکا دی گور گُناہوں سے ہم نے توبہ کی
نجات کی ہمیں راہیں بتا کے دَم نِکلا‘‘
مَیں سوچ رہا ہُوں کہ اگر گلوکار غلام علی علاّمہ القادری کو اپنے مخصوص کلاسیکی رنگ میں یہ شعر سُنا دیں تو کیا ’’شیخ اُلاسلام‘‘ کے لئے نجات کی راہیں نِکل آئیں گی؟!۔

ای پیپر دی نیشن