اقوام متحدہ کی طرف سے کسی بھی ملک میں قیام امن کےلئے فوج بھیجنے کی ابتدا 1948 میں عرب اسرائیل جنگ کے دوران اس وقت ہوئی جب عرب ممالک اور اسرائیلی حکومت امن کےلئے یتار ہو گئے اور چاہتے تھے کہ اقوام متحدہ خطے میں اپنی فورس تعینات کرے تاکہ کسی ایک فریق کی طرف سے جارحیت بڑھ کر بڑی جنگ کی صورت اختیار نہ کر لے اقوام متحدہ نے اس حوالے سے رکن ممالک کو فوجی دستے بھیجنے کی درخواست کی جنہوں نے اقوام متحدہ کی کمانڈ میں متاثرہ علاقوں میں خدمات سرانجام دینی تھی یہ فورس عالمی سطح پر United Nations Truce Supervision Organization (UNTSO) کے نام سے مشہور ہوئی۔ یہ تجربہ طویل عرصے تک اسرائیل و عرب ریاستوں کے درمیان بڑی جنگ کو روکنے میں کامیاب رہا بعد ازاں نام میں تبدیلی ہوئی اور اقوام متحدہ کی امن فوج United Nations Peacekeepine Force قرار پائی تاہم امریکہ اور سوویت یونین کی سرد جنگ کے دوران جب دنیا دو حصوں میں بٹ گئی تو اس نے بہت سی ریاستوں کے درمیان علاقائی کشیدگی اور باہمی تنازعات کو ہوا دی جس نے نہ صرف نئی قسم کی کشیدگیوں کو جنم دیا بلکہ اقوام متحدہ کی امن فوج کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہو گیا۔ سوویت یونین کا خاتمہ بھی ان ذمہ داریوں میں کمی نہ کر سکا اور اقوام متحدہ کی امن فوج کےلئے افرادی قوت کی طلب بڑھ گئی جس کے بعد بھارت بھی ان ممالک کی صف میں شامل ہو گیا جن پر اقوام متحدہ کی امن فوج کا انحصار تھا لیکن اسکے ساتھ ہی بھارتی فوجیوں کی طرف سے ڈسپلن کی خلاف ورزیوں کی بدولت متاثرہ علاقوں میں امن فوج سے متعلق شکایات میں بھی اضافہ ہو گیا جو بعض موقعوں پر اقوام متحدہ کےلئے شرمندگی کا باعث ثابت ہوئیں۔کہیں ناجائز اسلحہ کی سنگلنگ‘ کہیں مقامی خواتین کی عصمت دری تو کسی ملک میں بھارتی فوجی وبائی امراض پھیلانے کا سبب بنے بیرون ملک اقوام متحدہ کی امن فوج کا حصہ بن کر بدامنی و خانہ جنگی کے ہاتھوں تباہ حال ملک کی خواتین سے بھارتی فوجیوں کی زیادتیوں کا واقعہ 2010ءمیں اس وقت منظر عام پر آیا جب وسطی افریقہ کے ملک کانگو میں بن بیاہی چند کانگولی خواتین اپنے بچوں کو ساتھ لےکر انکی کفالت کےلئے فساد زدہ علاقے ”درلا“ میں قائم اقوام متحدہ کے ذیلی دفتر میں پیش ہوئیں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ یہ بچے بھارتی فوجیوں کے ہیں اور وہ انکی کفالت کرنے سے قاصر ہیں لہٰذا اقوام متحدہ انکی کفالت کرے۔ بچوں کی جسمانی ساخت اور شکل و صورت افریقی بچوں سے مختلف اور بھارتیوں سے ملتی جلتی تھی۔ اقوام متحدہ کی تحقیقات میں وہ بچے بھارتیوں کے ثابت ہوئے۔ مزید تحقیق کرنے 51 ناجائز بچے سامنے آئے جبکہ بھارتی فوجیوں کی ہوس کا نشانہ بننے والی مقامی خواتین کی تعداد سینکڑوں میں تھی جنہیں بھارتیوں نے خوراک‘ کپڑے اور بھارتی ساختہ میک اپ کے سامان کا لالچ دے کر مختلف برسوں میں زیادتی کا نشانہ بنایا یہ جانتے ہوئے کہ مظلوم عورتیں بے بس ہیں خانہ جنگی نے ان سے زندگی کے حوالے سے تمام خواب چھین لئے ہیں حالانکہ متاثرہ علاقوں میں بسنے والوں کی زندگی اور ان کی عزتوں کے تحفظ کی تمام تر ذمہ داری اقوام متحدہ کی تھی اور اپنے اس فرض کو نبھانے کےلئے ہی فساد زدہ علاقوں میں امن فوج بھیجی گئی تھی۔ کانگو میں اقوام متحدہ کے دفتر نے مسئلے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے نیویارک میں مرکز کو ساری صورت حال سے آگاہ کیا جہاں مارچ 2008ءمیں جنوبی افریقہ کے ساحلی شہر Plettenberg Bay میں کانگو سے چھٹیاں لے کر جانے والے بھارتی فوج کے ایک لیفٹیننٹ کرنل اور 2 میجروں کی طرف سے Pretoria سے تفریح کی خاطر آئی ہوئی ایک خاتون کو درندگی کا نشانہ بنائے جانے کی بازگشت ابھی تک موجود تھی جنہیں مقامی پولیس نے گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا تھا۔ اقوام متحدہ نے انہیں رہائی دلانے کے بعد وہیں سے ہی واپس بھارت بھجوا دیا تھا اور بھارت کو اقوام متحدہ سے تحریری معافی مانگنی پڑی تھی۔ اوپر سے اب یہ بھارتی فوجیوں کے ناجائز بچوں کی افتاد آن پڑی تھی۔کانگو میں بھارتی امن دستے کے سربراہ بریگیڈ کمانڈر نے صورتحال بھارت کےخلاف جاتی دیکھ کر الزام پاکستانی فوجیوں پر لگا دیا کہ بچے انکے ہیں جس پر اقوام متحدہ نے بچوں کے ڈی این اے کا حکم دیا۔ نتائج آنے پر جب ڈی این اے کی ٹیسٹ رپورٹ کے حوالے سے چھان بین کی گئی تو انکشاف ہوا کہ تمام ناجائز بچے 2008ءمیں کانگو میں تعینات اقوام متحدہ کی امن فوج میں شامل بھارتی دستے 6Th Sikh Battalion میں شامل افسران اور جوانوں کے ہیں جن کے نام اور رینک سب سامنے آ گئے ان میں 12 افسران اور 39 جوان و نان کمیشنڈ افسر شامل تھے۔ بھارت کو فوری طور پر آگاہ کیا گیا کہ وہ ملوث فوجیوں کیخلاف مقدمات چلا کر انہیں سزا دے۔بھارت نے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی تحقیقاتی رپورٹ پر کارروائی کرنے کی بجائے خود سے انکوائری کرانے کا جھانسہ دے کر معاملے کو سرد خانے میں ڈال دیا دوسری طرف اقوام متحدہ کی ساکھ دا¶ پر لگی ہوئی تھی۔ اگست 2010ءمیں بھارتی فوج کی ایک ایجنٹ اقوام متحدہ کی امن فوج میں شامل ہونے کےلئے نیو دہلی سے روانہ ہونے لگی تو اقوام متحدہ نے انہیں قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے بھارت پر واضح کر دیا کہ جب تک بھارت اپنی فوج میں شامل ان درندوں کو سزا نہیں دیتا جو اپنے ناجائز بچے کانگو میں چھوڑ آئے ہیں تو نہ صرف یہ کہ بھارتی فوجیوں کو امن فوج میں قبول نہیں کیا جائیگا بلکہ مختلف فساد زدہ ممالک میں تعینات امن فوج میں شامل ہزاروں فوجیوں کو بھی واپس بھیج دیا جائےگا۔ علاوہ ازیں مجرموں کیخلاف تادیبی کارروائی اقوام متحدہ کا ادارہ خود کرنے پر مجبور ہو جائےگا۔ بھارت کےلئے ممکن نہیں تھا کہ وہ امن فوج میں شامل فوجیوں کی خدمات کی مد میں حاصل ہونیوالا کثیر زرمبادلہ چھوڑ دے اور عالمی سطح پر بے عزت بھی ہو۔ اقوام متحدہ کی دھمکی نے کام دکھایا اور اترپردیش کی چھا¶نی میں تعینات ایک بریگیڈئر کی سربراہی میں فوری طور پر ایک انکوائری کمیٹی قائم کی اور چھٹی سکھ بٹالین کے ان افسران و جوانوں کو سزا دینے کےلئے کارروائی شروع کر دی گئی جن کے نام اقوام متحدہ نے فراہم کئے تھے۔ ابھی یہ مسئلہ چل ہی رہا تھا کہ 2010ءمیں ہیٹی میں امن فوج میں شامل بھارتیوں کی وجہ سے ہیضہ پھیل گیا۔ اس کا انکشاف بھی اقوام متحدہ کی طرف سے ہونیوالی تحقیقات کے نتیجے میں سامنے آیا کہ جان لیوا وبائی مرض پھیلانے کا سبب وہ بھارتی فوجی تھے جو بغیر ویکسینیشن کے ہیٹی پہنچے ہیٹی سے آنے والی اطلاعات کے مطابق 2010ءکے بعد سے اب تک دس ہزار سے زیادہ اموات Cholera Strain کی بدولت ہو چکی ہیں۔
اقوام متحدہ کیلئے شرمندگی کا باعث ”بھارتی امن فورس“
Feb 09, 2017