اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ برائے حکومتی یقین دہانیوں کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس مےں بتاےا گےا کہ سیکٹر E-12کے حقیقی متاثرین کی تصدیق کی جا رہی ہے اس کےلئے نیب یا ایف آئی اے کو ہمارے ساتھ شامل کر دیا جائے ،جو ہمارے ساتھ ہر متاثرہ شخص کے پاس جا کر حقیقی متاثرین کی شناخت کر سکے یا پھر ہماری تصدیق پر اعتماد کیا جائے ،ہماری تجاویز کوبل کی شکل میں ایوان میں لایا جائے تا کہ کمیٹی کا مقصد بھی پورا ہو سکے اور دو دودفعہ ایوارڈدینے سے بھی بچا جا سکے سیکٹر E-12میں زمین کے حصول کے سلسلے میں متاثرین سے متبادل پلاٹس اور ایوارڈ کےلئے مذاکرات کےلئے وفاقی ترقیاتی ادارے سی ڈی اے کو 15دن کا وقت دے دیا ،میئر اسلام آباد شیخ انصر عزیز اور ڈپٹی میئر ذیشان نقوی بھی متاثرین سے مذاکرات کے معاملے کی نگرانی کریں گے ، ملک ابرار نے کہا کہ سی ڈی اے کی کارکردگی صفر ہے ،اگر ادارے کو بہتر نہیں کر سکتے تو بہتر ہے بند کر دیں ، جس بندے کو اس کا حق مل جائے اسے کیا ضرورت ہے کہ وہ عدالت جائے ۔ ممبر سی ڈی اے خوشحال خان نے کہا کہ ہم کسی کو اندھیرے میں نہیں رکھنا چاہتے ، تصدیقی عمل اتنا مشکل نہیں اصل مسئلہ قانون کا ہے ، ہم متاثرین کے ساتھ مذاکرات کر کے پیکج ڈیل نہیںکرسکتے ، اگر اس حوالے سے پارلیمنٹ ہمیں سپورٹ کرے اور قانون سازی ہو جائے تو ہمیں لیگل کور حاصل ہو جائے گا ذیلی کمیٹی کا اجلاس بدھ کو یہاں سی ڈی اے ہیڈ کوآرٹر میں ہوا جس میں کنونیئر عبدالمجید خان ،ملک ابرار احمد،رکن اسمبلی شیراکبرخان ،میئر اسلام آباد شیخ انصر عزیز ، ڈپٹی میئر سید ذیشان علی نقوی اور سی ڈی اے کے حکام نے شرکت کی ۔کنونیئر کمیٹی عبدالمجید خان نے کہا کہ اسلام آباد ہمارا دارالحکومت اور دنیا کا خوبصورت شہر تھا جو اب تباہ ہوتا جا رہا ہے ہم اس فورم سے نہ صرف شہر کی خوبصورتی بحال کرنا چاہتے ہیں بلکہ شہر کے مکینو ں کے مسائل بھی حل کرنا چاہتے ہیں ۔ اجلاس میں وفاقی دارالحکومت کے سیکٹرE-12میںزمین کے حصول کے متاثرین کے معاملے کا جائزہ لیا گیا ۔سی ڈی اے کے شعبہ سٹیٹ کے ممبر خوشحال خان نے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ تصدیقی سروے کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں کے مقامی رہنماﺅں سے بھی رابطے کریں گے۔ رکن کمیٹی ملک ابرار نے کہا کہ 30 سال سے معاملات ایسے ہی چل رہے ہیں ، آج تک کسی سی ڈی اے افسر تنخواہوں اور مراعات میں کمی نہیں آئی ، صرف وہی لوگ متاثر ہو رہے ہیں جو حقیقی متاثرین ہیں ، اگر ان متاثرین کے آج ایک سے چار گھر ہو گئے ہیں تو قصور ان کا نہیں ، ایک شخص جس کے پوتے پوتیاں بھی ہو چکے ہیں کاخاندان بڑھے گا ہی ، اگر ایوارڈ اور پلاٹس وقت پرد یئے جاتے اس میں تاخیر نہ ہوتی تو آج صورتحال یہ نہ ہو تی ۔ ایف آئی اے اور نیب کو ساتھ ملانے کی ضرورت نہیں ، مقامی نمائندے موجود ہیں وہ حقیقی متاثرین کی تصدیق کر سکتے ہیں جو لوگ تصدیق کریں گے وہی ان کے ذمہ دار ہوں گے ، سی ڈی اے کے پاس متاثرین کی پرانی لسٹ موجود ہے ، نیا سروے کرنے کی بجائے اسی لسٹ کو فالو کیا جائے جو باہر سے آئے ہیں ان کو الگ کر دیں ، کمیٹی کا مطالبہ ہے کہ اصل متاثرین کو جلد سے جلد ان کا حق دیا جائے۔کنوینئر کمیٹی نے کہا کہ تصدیق بھی تب کی جا سکتی ہے جب کوئی لائحہ عمل بنایا جائے ، سی ڈی اے کے پاس ان متاثرین کے لئے کوئی لائحہ عمل نہیں ہے ۔ممبر سی ڈی اے خوشحال نے کہا کہ ہم اپنے قوانین کے تحت اگلی نسل کو ایوارڈ نہیں دے سکتے ، قوانین میں ہے کہ ایک دفعہ جس کو ایوارڈ دیا جا چکا ہے اسے دوبارہ نہیں دیا جا سکتا ، نہ ہی ہمارے پاس متاثرین کے ساتھ پیکج ڈیل کرنے کا اختیار ہے ، اس حوالے سے سپریم کورٹ نے پابندی لگائی ہوئی ہے ۔ رکن کمیٹی ملک ابرار نے کہا کہ آپ لوگوں نے پہلے ایوارڈ پر ایوارڈ دے رکھے ہیں اب کیوں نہیں دیے جا سکتے ۔ ڈپٹی میئر ذیشان نقوی نے کہا کہ ہم E-12کے متاثرین سے ملے ہیں وہ لوگ قبضہ دینے کےلئے تیار ہیں لیکن وہ اس وجہ سے نہیں دے رہے کہ انہیں کوئی متبادل جگہ نہیں دی جا رہی ۔رکن کمیٹی ملک ابرار نے کہا کہ اگر کسی ایک سیکٹر کے لوگوں کےلئے آپ کوئی پیکج اناﺅنس کریں گے تو باقی سیکٹرز کے لوگ بھی شور ڈال دیں گے کہ ہمیں بھی دیا جائے اس لئے بہتر ہے کہ پورے اسلام آباد کےلئے ایک ہی پیکج بن سکے اس کےلئے سی ڈی اے اپنے قانونی ماہرین کے ساتھ مل کر کوئی پلان بنائے۔