پاکستان کی موجودہ تین نسلیں جنگ آزادی کشمیر کی ہولناکیوں اور بے مثال عظیم قربانیوں کے دورانیہ سے گزر چکی ہیں۔ دنیا کی تاریخ نے سقوط بغداد کے بعد سقوط ڈھاکہ کا تاریخ ساز سانحہ دیکھا۔ پاکستان دو لخت ہوا۔ دونوں ہمسایہ ممالک بھارت اور پاکستان کانگرس اور مسلم لیگ کی حکومتیں کئی دفعہ گریں۔ مارشل لاء کے ادوار بھی آئے لیکن تاریخ کی آندھی کے سامنے کوئی نہ ٹھہر سکا۔ لیکن مقبوضہ کشمیر کی جنگ آزادی کی کشمیریوں کی حق خود ا رادیت میں حیرت کی بات ہے کوئی فرق نہیں آیا۔ ہر نئی نسل نے پورے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج اور سیاسی حکومت کا ظالمانہ ملٹری تسلط کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو کچلنے میں ہمیشہ بری طرح ناکام رہا ہے۔ گزشتہ دنوں یکجہتی کشمیر کے موقع پر پوری دنیا میں مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کی گونج سنائی دی۔ ان کی جان و مال اور عصمتوں کی بے مثال قربانیوں کو سراہتے ہوئے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کیلئے جلسے جلوس اور ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر تاریخی ریلیاں نکالی گئیں اور جگہ جگہ مقبوضہ کشمیر اور پاکستان میں اقوام متحدہ کے دفاتر میں یادداشتیں پیش کرتے ہوئے بھارت کو وارننگ دیتے ہوئے اقوام متحدہ کو باور کرایا گیا کہ مسئلہ کشمیر کے منصفانہ اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے وعدہ کو مذاکرات کی میز پر حل کرنے کی سنجیدگی کوششیں عالمی سطح پر نہ کی گئیں تو خطہ میں پائیدار امن کا حصول ممکن نہ ہو گا۔
اس موقع پر پاکستان کے ہر سطح اور ہر طبقہ کے نمائندوں نے عوام کے ساتھ مل کر بڑے شہروں سے لیکر پاکستان کے گلی کوچوں اور دیہات میں یہ ثابت کر کے دکھا دیا ہے کہ پارلیمنٹ اور عوام کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں پاکستان کی ہر سیاسی پارٹی قدم سے قدم اورکندھے سے کندھا ملا کر اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ کشمیریوں کی مشاورت اور تعاون کے بغیر کوئی سیاسی یا فوجی سنگینوں کے ذریعے نافذ کیا گیا حل قابل قبول نہیں ہو گا۔ پورے مقبوضہ کشمیر میں ایسے تمام احتجاجی موقعوں پر مکمل شٹرڈائون ہڑتالیں کشمیریوں کے چٹان کی طرح مضبوط عزم کا اظہار کرتی ہیں۔ اس لئے بھارتی حکومت اور فوجی قیادت کو لازم ہے کہ اپنے آپ کو مزید فریب دینے کی بجائے حالات کے کئی دہائیوں کے ماضی کے زمینی حالات اور منظر نامہ کے پیش نظر اپنے سہولت کاروں اور پاکستان مخالف قوتوں سے گٹھ جوڑ کے ساتھ پاکستان کو عدم توازن کی طرف دھکیلنے کی بجائے اپنی جارحانہ کارروائیاں اور ایل او سی اور ورکنگ بانڈری پر بلا اشتعال زمینی حملوں گولہ باری اور افغانستان سرحد پر دہشت گردوں کے ساتھ ملکر جن جاریحانہ کارروائیوں میں ملوث ہے اور جن کے بارے میں ٹھوس ثبوت دفتر خارجہ میں بھارتی افسران کو کئی دفعہ پیش کئے جا چکے ہیں اور علاوہ ازیں اقوام متحدہ کے مختلف اداروں میں بار بار پیش کرنے کے باوجود بھارت اور اس کے ساتھی ممالک پاکستان پر سیاسی اقتصادی اور سفارتی دبائو ڈالنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے ہیں۔
مندرجہ بالا پس منظر میں اگر پاکستان کے اندرون سیاسی اور انتظامی عدالتی سماجی اور گڈ گورننس کے احتماعی منظرنامہ پر نظر ڈالتے ہوئے گزشتہ چند روز کے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر نظر ڈالیں تو پاکستان کے اندر یونٹی‘ فیتھ اینڈ ڈسپلن کا خوشگوار نقشہ نظر نہیں آتا۔ ہر طرف ایک غیر یقینی اور ناخوشگوار نقشہ ابھرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ایک افراتفری کا عالم ہے جس میں چاروں صوبوں کے ہر بڑے شہر میں یا تو کوئی بڑا احتجاجی سیاسی جلسہ ابھی بھی ختم ہوا ہے یا کسی نئے جلسے کی تیاریاں شروع ہیں اور کسی نہ کسی ایشو پر حکومت یا بعض اداروں یا شخصیات کو اپنے عہدوں سے استعفے دینے کیلئے ڈیڈ لائن جاری کی جا رہی ہیں۔ جس کے بعد برسر اقتدار پارٹی یا الائنس کو حکومت چلانا مشکل بنا دیا جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں عوام خوف و ہراس میں مبتلا ہیں ایک طرف سے نئے بجلی اور گیس کے منصوبوں کے اعلان ہوتے ہیں دوسری طرف سے مخالف پارٹیاں ان منصوبوں کو دھوکہ قرار دیتی ہیں۔ ایک طرف اعلان ہوتا ہے کہ نئے بجلی اور گیس کے پلانٹ فلاں تاریخ کو فلاں شہر میں وزیراعظم یا وزیراعلیٰ تختی کی نقاب کشائی کریں گے دوسری طرف سے انکشاف ہوتا ہے کہ مذکورہ منصوبہ یا مذکورہ سابق وزیراعظم اور تختی کی نقاب کشائی کرنے والے مذکورہ وزیر اعلیٰ یا وفاقی اور صوبائی وزیر کو فلاں تاریخ کو فلاں اعلیٰ عدالت نے فلاں مقدمے یا توہین عدالت کے الزام میں طلب کیاہے۔ کوئی بھی ا خبار اٹھا لیں سابق وزیراعظم یا شریف خاندان کے کسی نہ کسی فرد کو یا ان کے موجودہ وزیر مشیر یا سیکرٹری کو عدالت میں طلبی کا بلاوا دیکھنے میں آتا ہے۔ یہاں تک کہ معزز سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان بھی الزام تراشی سے محفوظ نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر اگر اعلیٰ عدلیہ نے کسی پارٹی لیڈر کو صادق اور امین قرار دیا ہے تو فوراً الزام لگایا جاتا ہے ’’کیا جھوٹ بولنے اور سازشیں کرنے والے صادق اور امین ہوتے ہیں‘ نوٹس بھیجنے والے خدا سے ڈریں‘‘۔ ایک قدآور پارٹی صدر نے ایک بہت بڑے جلسہ میں خطاب کرتے ہوئے اپنے لئے ووٹ مانگتے ہوئے یہ انداز خطابت اختیار کیا ’’کشتیاں جلا کر نکلیں عوام اتنے ووٹ دیں کہ ان کے خلاف نا اہلی کا فیصلہ ختم ہو جائے‘‘۔ جب میں نے یہ خبر پڑھی تو معاً خیال آیا کاش ہجوم کو یہ اپیل کی جاتی ’’میں قوم سے اپیل کرتا ہوں کہ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی جدوجہد میں پاکستان کے لوگ کشتیاں جلا کر اس سے بھی بڑی تعداد میں باہر نکلیں تاکہ بھارت فوجی قبضہ ختم کر کے کشمیر پر بامعنی مذاکرات شروع کرنے پر مجبور ہو جائے‘‘۔ لیکن پاکستان میں عدلیہ کی توہین روزمرہ کا معمول بن گیا ہے اور اب صورتحال یہا ں تک آن پہنچی ہے کہ سپریم کورٹ کے بلاوے پر متعلقہ شخصیات فریق بننے سے انکاری ہیں۔ ایسی صورتحال مستقبل کیلئے امید افزاء نہیں کہی جا سکتی بلکہ اسے اگر محاذ آرائی میں اضافہ یا GATHERING STORM کی وارننگ کہا جائے تو آنے والے طوفان سے مملکت خداداد کو یقیناً صبروتحمل سے کام لیتے ہوئے ہر بلا سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ پاکستان زندہ باد