قربان جائوں آج کل ایسے بیانات پڑھنے کو ملتے ہیں کہ دل کرتا ہے سر دُھنتے رہیں۔ پہلے جی جلتا تھا مگر اب ہنسی آنے لگی ہے اسی سے آپ اندازہ لگا لیں کہ کچھ سیاست دان اپنے آپ کو اس حد تک لے گئے ہیں کہ عوام نے انہیں سیریس لینا ہی چھوڑ دیا ہے۔ جس طرح ہر فلم اور ڈرامے میں ایک مزاحیہ کردار ہوتا ہے جو بغیر سوچے سمجھے بات کر کے ماحول کو خوشگوار بنانے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح ہمارے ہاں کچھ ایسے کردار سیاست میں دَر آئے ہیں جنہیں سیاست کی الف ب سے کوئی غرض نہیں، ان کا کوئی مقصد نہیں، عوام کی فلاح سے کوئی سروکار نہیں۔ ان کی واحد تمنا اونچی کرسی پر بیٹھنا اور راج کرنا ہے اور اس کے لئے وہ جو منہ میں آئے ارشاد فرماتے رہتے ہیں جیسے کہ خان صاحب کے بہت سارے بیانات مثال کے طور پر لکھے جا سکتے ہیں جن کا کوئی سر پیر ہی نہیں۔ کوئی بھی ان کے کان میں کھُسر پھُسر کر دے یہ بغیر تصدیق کئے آگے بڑھا دیتے ہیں بلکہ میڈیا کے سامنے بڑے فخر سے اعلان کر دیتے ہیں۔ اب میڈیا ایک منٹ میں اس کی تصدیق کر لیتا ہے اور پھر جگ ہنسائی مگر اتنے سارے واقعات کے باوجود خان صاحب کا رویہ تبدیل ہونے کا نام نہیں لے رہا بلکہ دن بدن اس میں شدید قسم کی تلخی آتی جا رہی ہے۔ ان کا حالیہ بیان کہ پنجاب اور مسلم لیگ (ن) کی ترقی دکھاوے کی ترقی ہے۔ سن کر خیال کے گھوڑے دوڑائے تو پتہ چلا کہ خان صاحب اس بار سچ بول رہے ہیں کیوں کہ ترقی ایک ایسا عمل ہے جو نظر آتا ہے۔ ترقی سے پہلے ایک منصوبہ بنایا جاتا ہے اور منصوبے سے بھی پہلے اس کے بارے میں رائے قائم کی جاتی ہے لیکن جب کوئی چیز قائم ہو جاتی ہے تو پھر وہ نظر آنا شروع ہوتی ہے۔ خان صاحب کے مطابق نظر آنے والی چیزیں یعنی حقیقی طور پر موجود چیزیں بے وقعت ہیں اور وہ بڑے بڑے منصوبے جن کا وہ صرف اعلان کرتے ہیں یا خواب دیکھتے ہیں وہ اصل ہیں کیوں کہ ظاہری چیزوں میں کوئی نہ کوئی خامی ضرور رہ جاتی ہے جب کہ خوابوں میں موجود منصوبے آئیڈیل ہوتے ہیں۔ امید ہے جس طرح ساڑھے چار سال انہوں نے خواب دیکھنے، ٹرخانے اور پنجاب پر وار کرنے میں گزار دیئے اسی طرح وہ بقیہ کچھ مہینے بھی یہی کچھ کریں گے اور جب الیکشن میں عوام کارکردگی دیکھ کر فیصلہ کرے گی تو دھاندلی کا رونا رونے لگیں گے۔ کچھ یہی صورت حال پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کی بھی ہے۔
پنجاب کے دل لاہور میں بیٹھ کر انہوں نے جس طرح پنجاب کے رہنمائوں کے بارے میں سخت الفاظ بلکہ گالیاں دیں اس کی مثال نہیں۔ ایک ایسا شخص جس کا اپنا دامن داغ داغ ہے وہ پنجاب کے رہنمائوں کو برا بھلا کہتے ہوئے حد سے گزر رہا ہے اور ان سے قوم کی لوٹی ہوئی رقم واپس لینے کا تقاضا کر رہا ہے۔ ہے نا لطیفہ… اگر انہیں قوم کا اتنا ہی درد ہے تو وہ سوئس بینک میں پڑی دولت واپس کیوں نہیں لے کر آتے؟ ملکوں ملکوں اپنے محل بیچ کر پاکستان میں سرمایہ کاری کیوں نہیں کرتے؟ سندھ پر کب سے ان کی حکومت ہے، وہاں کے حالات کیوں نہیں بدلتے؟ ہر کسی کو پنجاب کو بدلنے اور گالی دینے کا شوق چڑھا ہوا ہے۔ موصوف نے عمران خان کا نام لینا گوارا نہیں کیا صرف شریف برادران تک محدود رہے۔ خادمِ پنجاب نے زرداری کو ایک جملے میں یہ کہہ کر مات دے دی کہ زرداری صاحب اگر آپ کے دل میں لوٹی ہوئی دولت پاکستان کو واپس لوٹانے کا خیال آ گیا ہے تو بسم اللہ کریں اور معافی مانگ کر دولت واپس لائیں۔ نہ جانے کیوں زرداری صاحب کو یہ وہم ہو گیا ہے کہ لوگ ان کے سابقہ رویوں اور گزشتہ حکومت کی کارکردگی کو بھول چکے ہیں اور انہیں صادق و امین سمجھ کر دوبارہ ان پر اعتماد کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ یہ غلط فہمی بہت نقصان دہ ہے تاہم رہنما قوم کا معمار ہوتا ہے۔ اگر جلسوں میں دوسروں کو درندہ اور ناسور کہا جائے گا تو ہماری نئی نسل ان سے کیا سیکھے گی؟ میرا خیال ہے کہ زرداری صاحب نے گزشتہ لاہور کے جلسے میں عمران خان کی قربت سے یہ فیض پایا ہے اور اب اک پارلیمانی لہجہ اختیار کرنے کی بجائے وہ بھی گالی گلوچ پر اتر آئے ہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اب ان کے دامن میں کچھ نہیں کیوں کہ اگر انہیں عوام کی حمایت حاصل ہوتی تو وہ اس حد تک کبھی نہ جاتے۔ یہ غصہ دراصل عوام پر ہے کہ آپ لوگ آنکھیں بند کریں، ترقی کا رونا رونا چھوڑیں، بھوک ننگ برداشت کریں اور بھٹو کو زندہ رکھیں کا نعرہ لگا کر ہمارا راج ممکن بنائیں۔ بہرحال اب لوگ کافی سیانے ہو گئے ہیں اس لئے زرداری صاحب کو دوسروں کو برا بھلا کہنے کی بجائے سندھ کی کوئی مثال پیش کرنی چاہئے، شفافیت کی، خدمت کی اور ترقی کی۔ کہیں ایسا تو نہیں وہ بھی دل ہی دل میں منصوبے بناتے ہیں، خواب دیکھتے ہیں اور پھر دوسروں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر خود آگے نکل جاتے ہیں۔ خدمت، شفافیت اور کام، کام، کام کی جو مثال پنجاب نے قائم کی ہے اگر تمام صوبے اس کی پیروی کریں تو پاکستان ترقی یافتہ ملک بن کر دنیا کے سامنے کھڑا ہو اور ہر طرح کی معاشی غلامی سے نجات حاصل کرے۔