مستقبل قریب میں پاکستانی سیاست کے حوالے سے کچھ شخصیات کا سیاسی تجزیہ کرتے ہیں۔ وہ 12 اکتوبر 1999ء کی رات تھی جب کچھ سرکاری گاڑیاں اور ایک جیپ اسلام آباد کی منسٹرز کالونی کے ایک گھر میں داخل ہوئیں۔ انہیں ن لیگ کے ایک وفاقی وزیر کو گرفتار کرنا تھا جسے ’’پرسکون پرندہ‘‘ کا کوڈ نام دیا گیا تھا۔ یہ وہی قیدی تھا جسے بعد میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ’’ضمیر کا قیدی‘‘ کہا۔ انہیں ہم مشاہد حسین سید کے نام سے جانتے ہیں۔ اُن کی موثر شخصیت کے کچھ دلچسپ پہلو بھی ہیں۔ مثلاً 1979ء میں جنرل ضیاء الحق کی مخالفت کرنے اور جمہوری سوچ رکھنے کی پاداش میں انہیں پنجاب یونیورسٹی کی لیکچررشپ سے نکال دیا گیا۔ انہو ں نے پاکستانی انگریزی روزنامہ ’’دی مسلم‘‘ کی ایڈیٹر شپ کے دوران 28 جنوری 1987ء کو اسلام آباد میں پاکستان کے نیوکلیئر سائنسدان اے کیو خان کے ساتھ بھارتی صحافی کلدیپ نائر کے مبینہ انٹرویو کا انتظام کروایا۔ اس انٹرویو میں ڈاکٹر خان نے انکشاف کیا کہ ’’پاکستان کے پاس نیوکلیئر صلاحیت ہے اور یہ بات امریکہ بھی جانتا ہے‘‘۔ مذکورہ انٹرویو کے حوالے سے مبہم وضاحتیں سامنے آئیں۔ پاکستانی موقف کے مطابق ایسا کوئی انٹرویو نہیں لیا گیا۔ کلدیپ نائر کے مطابق انہوں نے یہ انٹرویو ڈاکٹر خان کے پہلے سے کچھ شائع شدہ مضامین سے اخذ کیا جبکہ ’’لیونارڈ ایس سپیکٹر‘‘ کی کتاب ’’دی اَن ڈکلیئرڈ بوم‘‘ کے مطابق مشاہد حسین سید نے خود بتایا کہ انہوں نے کلدیپ نائر اور ڈاکٹر خان کی ایک گھنٹے تک ملاقات کروائی تھی۔ تاہم اس تنازعے میں مشاہد حسین سید کو اخبار کی ایڈیٹرشپ سے ہٹا دیا گیا۔ انٹرویو کے ہونے یا نہ ہونے کی بات الگ ہے لیکن یہ وہی وقت تھا جب راجستھان میں انڈیا اپنی مشہور فوجی مشقیں براس ٹیکس کررہا تھا اور یہ خطرہ موجود تھا کہ ان فوجی مشقوں کی آڑ میں ہندوستان پاکستان پر حملہ کرسکتا ہے۔ عین اُس وقت پاکستانی نیوکلیئر صلاحیت کے بارے میں مبینہ اشارہ سامنے آنا انڈیا کے لئے بہت بڑا دھچکا تھا۔ سفارتکاری میں اِسے ’’نیوکلیئر سگنلنگ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اُسی دوران 21 فروری 1987ء کو جنرل ضیاء الحق نے کرکٹ ڈپلومیسی کے نام پر ہندوستان کا اچانک دورہ کیا۔ سفارتکاروں کے نزدیک یہ دونوں اقدامات انڈیا کو بیک فٹ پر لے گئے اور مہم جوئی کا عزم لئے ہوئے انڈین فوجی مشقیں براس ٹیکس ختم کردی گئیں۔ مشاہد حسین سید 1999ء کے بعد جنرل مشرف کے مارشل لاء میں ایک سال سے زائد نظربند رہے۔ اپنی قید کے دوران یا رہائی کے بعد انہوں نے ن لیگ چھوڑ دی اور 2003ء میں ق لیگ کی طرف سے سینیٹر منتخب ہوئے۔ ممتاز صحافی ایم ضیاء الدین نے روزنامہ ڈان کے لئے لکھتے ہوئے دعویٰ کیا کہ مشاہد حسین سید نے 2003ء میں سینیٹ الیکشن کا فارم واشنگٹن کی ریکمنڈیشن پر بھرا۔ ایم ضیاء الدین کی اس بات کا تجزیہ کریں تو ہوسکتا ہے کہ مشاہد حسین سید جب جارج ٹائون یونیورسٹی کے سکول آف فارن سروس میں زیرتعلیم تھے تو اُن کے کچھ کلاس فیلو یا جان پہچان کے لوگ جو بعد میں امریکی حکومت میں بااثر ہوگئے ہوں نے جنرل مشرف پر مشاہد حسین سید کو سینیٹر بنانے کا دبائو ڈالا ہو۔ مشاہد حسین سید کی نواز شریف سے حالیہ ملاقات کے بعد ن لیگ میں شمولیت اور سینیٹ کا ٹکٹ ملنے پر چے میگوئیاں ہورہی ہیں۔ دیکھا جائے تو مشاہد حسین سید نے گزشتہ چند برسوں میں پاک چین تعلقات کے حوالے سے خوب نام کمایا ہے۔ یہ کہنا درست ہوگا کہ نواز شریف اور شہباز شریف کے بعد مشاہد حسین سید وہ پاکستانی سویلین لیڈر ہیں جو چین کے لئے ہردلعزیز ہیں۔ شاید اِس مرتبہ مشاہد حسین سید کو سینیٹ کا ٹکٹ دینے کے حوالے سے ن لیگ کو چین کی پسند کا خیال رکھنا ضروری ہوگیا ہو۔ مشاہد حسین سید اپنے دانشورانہ متوازن مزاج کے حوالے سے ہماری سٹیبلشمنٹ کے لئے بھی قابل قبول ہیں۔ اگر ن لیگ سینیٹ میں اکثریت حاصل کرجاتی ہے تو نواز شریف کو مشاہد حسین سید کی صورت میں سینیٹ کا ایک ایسا چیئرمین مل جائے گا جو موجودہ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی جیسی دانشور شخصیت کا متبادل ثابت ہوگا۔ مشاہد حسین سید تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے لئے بھی مناسب ہوں گے۔ اگر مشاہد حسین سید کے تعلقات قومی اور بین الاقوامی سطح پر بااختیار حلقوں کے ساتھ ہیں تو اُن کے یہ تعلقات ہمیشہ پاکستان کے حق میں ہی استعمال ہوئے ہیں۔ مستقبل قریب کی سیاست میں مزید نمایاں ہونے والی دوسری شخصیت خواجہ سعد رفیق کی ہے۔ مسلم لیگ سے وفاداری کا سلسلہ اُن کے والد محترم سے لے کر خواجہ سعد رفیق کی طالبعلمی سے ہوتا ہوا جنرل مشرف کی قیدوبند کی مشقت سے بھی شک و شبہے کے بغیر گزر گیا۔ وہ شہری حلقوں میں عوامی ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی جوڑتوڑ کے بھی ماہر ہوگئے ہیں۔ وہ نواز شریف کے بعد اب شہباز شریف کی بھی خصوصی توجہ کے حقدار ہوتے ہیں۔ پنجاب کے حوالے سے کوئی بھی اہم فیصلہ یا جلسہ ہو یا شریف خاندان کا کوئی بھی مقامی یا بین الاقوامی اہم حساس معاملہ ہو، خواجہ سعد رفیق کی ظاہری یا درپردہ شمولیت یا مشورہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستان ریلوے اُن کی انتظامی صلاحیتوں کا منہ بولتا شاہکار ہے۔ یہ وہی پاکستان ریلوے تھی جو پیپلز پارٹی کے 2013ء میں ختم ہونے والے اقتدار تک ختم ہوچکی تھی اور سابقہ منافع بخش مال گاڑیاں ریلوے لائنوں سے بالکل ہٹا ہی دی گئی تھیں۔ اسی بنا پر اُس وقت کے وزیر ریلوے غلام احمد بلور پاکستان کے اِس اثاثے کو اونے پونے داموں فروخت کرکے قومی خدمت سرانجام دینا چاہتے تھے۔ خواجہ سعد رفیق نے وزارت سنبھالنے کے بعد پاکستان ریلوے کو زندہ کیا، بروقت کیا، اَپ گریڈ کیا، مال گاڑیوں کو دوبارہ چالو کیا اور گزشتہ ساڑھے چار برسوں میں پاکستان ریلوے کو ایک منافع بخش ادارہ بنا دیا۔ شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کی صورت میں خواجہ سعد رفیق پنجاب کے وزیراعلیٰ کا خلا پُر کرنے کے پورے نمبر رکھتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ 2018ء میں ن لیگ کی جیت کے بعد نواز شریف عہدے کی مہم جوئی سے زیادہ آئینی اور قانونی ترامیم کی مہم جوئی کریں گے۔ وہ آئین اور قانون میں ایسی تبدیلیاں لائیں گے جو مستقبل میں ہمارے سیاسی اور عدالتی نظام کو سابقہ حالات سے مختلف کریں۔ اس کے لئے انہیں کسی بڑے عہدے سے زیادہ بڑی سیاسی روحانی شخصیت بننا ہوگا۔ اس سیاسی فکری عمل میں مریم نواز اُن کی بہترین ساتھی ہوسکتی ہیں۔ اگر عدلیہ اور ایگزیکٹو کو الگ ہونا چاہئے تو سیاسی مفکرین اور ایگزیکٹو کو بھی الگ ہونا چاہئے۔
مشاہد حسین چیئرمین سینیٹ ،سعد رفیق وزیراعلیٰ پنجاب
Feb 09, 2018