اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+آن لائن صباح نیوز) سپریم کورٹ آف پاکستان میں انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017ء کے تحت ناہل شخص کو پارٹی سربراہ بنانے کیخلاف دائر آئینی درخواستوں کی سماعت میں وکلاء کے دلائل جاری تھے کہ کیس کی مزید سماعت آج جمعہ تک ملتوی کردی گئی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ واپس کر تے ہوئے اٹارنی جنرل آفس کو ہدایت کی کہ متعلقہ ریکارڈ باضابطہ طور پر عدالت کو جمع کروایا جائے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہمیںایسی عدالتی مثال دی جائیں کہ عدالت نے مخصوص شخص کیلئے بنایا گیا قانون کالعدم قرار دیا ہو، ہم عدالتی آبزرویشنز کی بنیاد پر قانون کیسے کالعدم قرار دے دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ ریاست کا اہم ترین ستون ہے ، مسلم لیگ ن کے آئین سے پتہ چلتا ہے کہ پارٹی صدر کس قدر طاقت ور ہوتا ہے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثارکی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے جمعرات کو کیس کی سماعت کی۔ وکیل ڈاکٹربابراعوان نے پیش ہوکرموقف اختیار کیا کہ انتخابات کا مرحلہ کاغذات نامزدگی سے جڑا ہوتا ہے، جس کیلئے امیدوار کا آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا اترنا ضروری ہے ۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ان سے کہاکہ لازمی نہیں کہ پارٹی کا سربراہ خود امیدوار بھی بن جائے، پارٹی توالیکشن کے بغیربھی چلائی جاسکتی ہے ، بتایا جائے کہ انتخابی اصلاحات ایکٹ آئین سے کس طرح متصادم ہے اورصرف آرٹیکل 203 کو خلاف آئین کیسے کہا جا سکتا ہے، ہمیںبتائیںکہ کیا عدالت نے کبھی کسی نئے قانون میں پرانی شقیں شامل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ موجودہ قانون کے تحت بھی نااہل شخص الیکشن نہیں لڑ سکتا۔ بابراعوان نے عدالت کوبتایا کہ پارلیمانی جمہوریت میں پارٹی سربراہ کا کردار بہت اہم ہے،وہی سارے فیصلے کرتاہے وہی جماعت کی رجسٹریشن اور انٹرا پارٹی الیکشن کی تفصیلات بھی فراہم کرتا ہے، جس پرجسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں مختلف قوانین کو اکٹھا کیا گیا۔ فاضل وکیل نے کہاکہ انتخابی اصلاحات ایکٹ میںشق 203 کو پانامہ فیصلے کے بعد شامل کیا گیا ہے جس پرچیف جسٹس نے استفسار کیاکہ کیا پانامہ کیس کے فیصلے سے پہلے والا ایکٹ کا اصل مسودہ موجود ہے۔ بابراعوان کاکہناتھاکہ اصل مسودے میں شق 203 شامل کر دی گئی تھی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کوبتایا کہ جو بل کمیٹی میں پیش ہوا تھا وہی پارلیمنٹ نے منظور کیا۔ سماعت کے دورا ن چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل آفس کی جانب سے دستاویزات براہ راست ججز کو بھجوانے پر خفگی کااظہارکرتے ہوئے کہا دستاویزات باضابطہ طریقے سے کیوں نہیں جمع کروائی گئیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہمیںایسی عدالتی مثال دی جائیں کہ عدالت نے مخصوص شخص کیلئے بنایا گیا قانون کالعدم قرار دیا ہو، ہم عدالتی آبزرویشنز کی بنیاد پر قانون کیسے کالعدم قرار دے دیں۔ فاضل وکیل نے کہاکہ آئین بننے کے بعد سے ایسا منفرد قانون کبھی نہیں بنا،میری یادداشت میں ایسا کوئی عدالتی فیصلہ موجود نہیں، حد تویہ ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت اجلاس میں کابینہ میں ردو بدل کا فیصلہ ہوا، جبکہ موجودہ وزیر اعظم کا فیصلہ بھی نواز شریف نے کیا، اس طرح پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بھی وزیراعظم پارٹی سربراہ نے بنایا تھا، جس پرچیف جسٹس نے ان سے کہاکہ پارٹی صدر کا کردار حکومت سے ختم نہیں کیا جا سکتا، اورپارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے ۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ سینٹ کے ٹکٹ کا فیصلہ بھی پارٹی صدر ہی کرینگے۔ چیف جسٹس نے کہا سوال یہ ہے کہ کیا پارٹی سربراہ جیل سے پارٹی کے امور چلا سکتا ہے، کیونکہ جیل میں تو قیدی کا باہر کوئی رابطہ نہیں ہوتا، ہم اس کیس کے فیصلے میں صرف نااہلی نہیں بلکہ دیگر معاملات کو بھی مدنظر رکھیں گے۔ ڈاکٹربابراعوان نے کہاکہ تمام ادارے سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد کے پابند ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کیاآپ کے مطابق عدلیہ پر تنقید ریاست کے ساتھ وفاداری نہیں ہوتی، بابراعوان کے دلائل مکمل ہوگئے ہیں۔ چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل ایڈووکیٹ شیخ احسن الدین سے استفسارکیا کہ وہ کس جماعت کی نمائندگی کریں گے۔ ایڈووکیٹ شیخ احسن الدین کہا کہ میں جسٹس اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی کی نمائندگی کر رہا ہوں۔ بعدازاں عدالت نے کیس کی مزیدسماعت آج تک ملتوی کر دی ہے۔ آن لائن اور صباح نیوز کے مطابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ قانون میں نااہل شخص کے پارٹی سربراہ بننے کی گنجائش ہے جس کا اثر و رسوخ ہوتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے آئین میں پارٹی کو صدر کو وسیع اختیارات ہیں۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کو مدنظر رکھ کر کس حد تک جا سکتے ہیں۔ بابراعوان نے کہا کہ پانامہ عدالتی فیصلے کا اثر ختم کرنے کیلئے سیکشن 203 شامل کیا گیا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے کہا کہ قائمہ کمیٹی نے سیکشن 203 مجوزہ قانون میں شامل کیا۔ اسی بل پر تمام سیاسی جماعتوں نے رضامندی ظاہر کی۔ پارلیمنٹ قانون سازی کا سپریم ادارہ ہے۔ یہاں میاں نوازشریف کی نہیں بلکہ پارٹی سربراہ کی بات ہو رہی ہے۔ کیا فوجداری الزام میں سزا یافتہ جیل سے پارٹی چلا سکتا ہے۔ جیل سے قیدی کا باہر رابطہ بھی نہیں ہوتا۔ صرف نااہلی نہیں دیگر معاملات کو بھی فیصلے کے وقت مدنظر رکھیں گے۔ اور صباح نیوز کے مطابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ قانون میں نااہل شخص کے پارٹی سربراہ بننے کی گنجائش ہے جس کا اثر و رسوخ ہوتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے آئین میں پارٹی کو صدر کو وسیع اختیارات ہیں۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کو مدنظر رکھ کر کس حد تک جا سکتے ہیں۔ بابراعوان نے کہا کہ پانامہ عدالتی فیصلے کا اثر ختم کرنے کیلئے سیکشن 203 شامل کیا گیا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے کہا کہ قائمہ کمیٹی نے سیکشن 203 مجوزہ قانون میں شامل کیا۔ اسی بل پر تمام سیاسی جماعتوں نے رضامندی ظاہر کی۔ پارلیمنٹ قانون سازی کا سپریم ادارہ ہے۔ یہاں میاں نوازشریف کی نہیں بلکہ پارٹی سربراہ کی بات ہو رہی ہے۔ کیا فوجداری الزام میں سزا یافتہ جیل سے پارٹی چلا سکتا ہے۔ جیل سے قیدی کا باہر رابطہ بھی نہیں ہوتا۔ صرف نااہلی نہیں دیگر معاملات کو بھی فیصلے کے وقت مدنظر رکھیں گے۔
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ آف پاکستان میں آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس کہا کہ تسلیم کرتے ہیں کہ آرٹیکل 62ون ایف مبہم ہے، یہ تاثر درست نہیں کہ پارلیمنٹ آزاد نہیں ہے، پارلیمنٹ ایک آزاد ادارہ ہے، آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت ایک ماہ، 6 ماہ یا ایک سال ہے اسکا تعین سپریم کورٹ نے کرنا ہے جب تک ڈیکلریشن رہے گا اس وقت تک نااہلی رہے گی، درخواست گزاروں کے وکلاء کے دلائل جاری تھے کہ وقت کی کمی کے باعث کیس کی مزید سماعت پیر 12فروری تک ملتوی کردی گئی۔ پیر کو اٹارنی جنرل دلائل دیں گے ۔ حسن نواز کی وکیل عاصمہ نے جہانگیر دلائل میں موقف اختیار کیا کہ ووٹرز کے لیے کوئی نااہلی یا نااہلیت نہیں ہوتی، آرٹیکل 62ون ایف میں ابہام ہے، کسی شخص کی شہرت اچھی یا برے کردار کا تعین کیسے ہوگا، ڈیکلریشن کونسی عدالت دے گی یہ بھی واضح نہیں، وزیراعظم کو حسن نواز کوکمپنی میں اثاثے نہ بتانے پر نااہل کیاگیا، کمپنی کا اثاثہ فروخت ہوچکا تھاکمپنی ان کے نام بھی نہیں تھی، جوکام پارلیمنٹ نے نہیں کیا وہ عدالت کیسے کرسکتی ہے، عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت زیادہ سے زیادہ مدت پانچ سال ہونی چاہیے۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ عدالت ٹھوس سوالات کوحل کرسکتی ہے، مفروضہ پرمبنی سوالات کوحل نہیں کرسکتی دیکھنا یہ ہے آرٹیکل 62ون ایف کاسوال ٹھوس ہے؟ 1985 سے قبل کسی کو نااہل قرار نہیں دیا گیا۔ 2000 میں ایل ایف او آیا تو عوامی نمائندگی ایکٹ میں ترمیم ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا شخص جو صادق و امین نہیں کیا وہ ضمنی انتخاب لڑسکتا ہے؟ ایڈووکیٹ عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 62 اور 63 کو اکٹھے دیکھا جانا چاہیے، چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت ایک ماہ، 6 ماہ یا ایک سال ہے اسکا تعین سپریم کورٹ نے کرنا ہے، بد دیانت شخص کی نااہلی کی مدت کتنی ہونی چاہئے؟ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ اگر دو روپے کی بددیانتی ہو تو اسکی سزا الگ ہوگی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بددیانتی یا دیانتداری کو اقدام کے ذریعے جانچا جاتا ہے۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ عدالت میں کھڑا ہوکر کوئی جعلی ڈگری کا دفاع نہیں کرسکتا، عاصمہ جہانگیر نظریہ پاکستان کامعاملہ ہوتو تعین کون کریگا؟جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ ہمارے سامنے نظریہ پاکستان کاسوال نہیں۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا پارلیمنٹ تاحال آزاد نہیں ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں پارلیمنٹ ایک آزاد پلیٹ فورم ہے۔کسی مبہم آرٹیکل کی تشریح کرنے کاطریقہ کارکیاہوگا ؟جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عدالت ایمانداری کاتعین کرسکتی ہے، بے ایمان شخص کچھ عرصہ بعد ایماندار کیسے ہوجائے گا۔ عاصمہ جہانگیر 1962کے آئین سے پہلے پروڈواورابڈو آیا، ان دوقوانین سے 7ہزار سے زیادہ لوگوں کونااہل کیاگیا ،نااہلی اس ملک کے لیے نئی بات نہیں۔ جسٹس اعجاز الا حسن نے کہا کہ قانون ساز نہیں چاہتے کہ بے ایمان شخص قانون سازی میں حصہ لے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اب اس مقدمے میں کسی اور کونہیں سنیں گے۔ پیرکواٹارنی جنرل دلائل دیں۔آرٹیکل 62ون ایف مبہم ہے تسلیم کرتے ہیں چیف جسٹس اس آرٹیکل کی تشریح کرنا مشکل ثابت ہوگا ۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہمیں آئیڈیل لوگوں کے معیار بلند رکھنے چاہئیں۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ اتنے اعلیٰ معیار کے لوگ باہر سے آسکتے ہیں کیونکہ وہ پاکستان سے تو نہیں ملیں گے۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ آرٹیکل 62اور 63 ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیںان کو الگ الگ پڑنے سے ان کی تشریح مکمل نہیں ہوتی۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ ایک ایسا شخص آیا تھا جس نے عدالت میں تسلیم کیا اسکی ڈگری جعلی ہے، اس شخص نے استعفے دے کر دوبارہ الیکشن لڑ ا اورالیکشن لڑ کر واپس آگیا، ضمنی الیکشن میں اس نے پہلے سے زیادہ ووٹ لئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بے ایمان ڈیکلیئرڈ ہونے والے شخص کی نااہلی کی مدت کیا ہوگی؟۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ 18 ویں ترمیم میں آرٹیکل ون ایف کی مدت کیوں نہیں لکھی گئی؟ہماری نظر میں آرٹیکل 62اور 63 آزاد اور الگ الگ ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ جب تک ڈیکلریشن موجود رہے گی تو نااہلی موجود رہے گی۔ممکن ہے فاضل عدالت مدت کا تعین کرے، پھر ایسی صورت میں کیس ٹوکیس فیصلہ کیا جائے گا،یہ ادارہ قائم دائم رہے گا، بہت سمجھدار لوگ اس ادارے میں آئیں گے۔ بعدازاں کیس کی سماعت پیر 12 فروری تک ملتوی کردی گئی ہے۔