یوم یکجہتی کشمیر، پاکستان کی جانب سے مزید محنت کی ضرورت

5فروری1991؁ء کے بعد سے یہ دن ہر برس یوم یکجہتی کشمیر کے طورپر منایا جاتا ہے۔اس دن پاکستان بھر میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ مساجد میں کشمیر یوں کے حق میں دعائیں مانگی جاتی ہیں، ریلیاںنکالی جاتی ہیں، سیمینار منعقد کرائے جاتے ہیں کشمیر کے شہدا، اور غازیوں کوخراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔انسانی ہاتھوں کی زنجیربنائی جاتی ہے جبکہ اقوام متحدہ کے دفاتر پہ حاضری دے کر عر ضداشت پیش کی جاتی ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پہ عمل درآمد کراکے مسئلہ کشمیر حل کر ایا جائے۔ دنیا کے مختلف دارالحکومتوں میں کشمیری اور پاکستانی اس دن احتجاجی ریلیاں منعقد کرتے ہیں تاکہ دنیا کی توجہ مقبوضہ کشمیر کے باسیوں پہ بھارت کی جانب سے ڈھائے جانے مظالم کی جانب مبذول کرائی جائیمسئلہ کشمیر 1947؁ء میں تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے۔1947؁ء کے آزای ایکٹ کے مطابق تاج برطانیہ نے یہ طے کیا تھا کہ تقسیم ہند بائونڈری ( سرحدی) کمیشن کی گزار شات کے منصوبے کے تحت ہوگی جبکہ نوابی ریاستوںکویہ اختیار دیا جائے گاکہ وہ خود فیصلہ کریں کہ وہ بھارت کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ؟ ریاست جمّوں کشمیر بھی نوابی ریاستوں میں سے ایک تھی جہاں کے ہندو ڈوگر ہ راجہ ہری سنگھ حکمراں تھے۔27اکتوبر 1947؁ء کو مہاراجہ کے اعلان الحاق سے قبل بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں اتاردیں اور ریاست پہ غاصابہ قبضہ کرلیا۔ پاکستان کی جانب سے کچھ رضا کار فوجی اور مجاہدین نے حملہ کردیا اور یوں پہلی کشمیر جنگ کا آغاز ہوا۔ مجاہدین کا پلڑا بھاری تھا اور وہ کشمیر کے دار الحکومت سرینگر کے قریب تھے کہ بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے اقوام متحدہ سے جنگ بندی کی درخواست کی۔
اقوام متحدہ نے جنگ بندی تو فوری کرادی لیکن کشمیر سے متعلق قرار دادیں بھی منظور کر لیں جن کے مطابق اقوام متحدہ کی سر پرستی میں استصواب رائے منعقد کرانے کی یاد دہانی کرائی گئی تاکہ کشمیری خود فیصلہ کریں کہ آیا وہ پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ۔ پنڈت جواہر لعل نہرونے اقوام متحدہ کی قراردادوں پہ عمل درآمدکی حامی بھر لی لیکن بعد میں مکر گئے۔
1965؁ء اور1971؁ء کی پاک بھارت جنگوں نے کشمیر کی تقدیر نہ بدلی اور مقبوضہ کشمیر کے باسی بھارتی ظلم کی چکی میں پستے رہے۔ بالآ خر مقبوضہ کشمیر کے باسیوں نے بھارت کے جورواستبداد سے تنگ آکر خودہی اپنی غلامی کی زنجیروںکو توڑنے کا عزم کیا اور1989؁ء میں حریتّ کا علم بلند کیا۔ انکی جائز جدوجہد کو کچلنے کی خاطر بھارت نے سات لاکھ فوج مقبوضہ کشمیر میں جھونک دی جس نے بربریّت کی نئی داستانیں رقم کیں۔1989؁ء سے اب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیری شہید کئے جاچکے ہیں ہزاروں کشمیری دوشیزائوں کے ساتھ زیادتی کی گئی اور ہزاروں کشمیری نوجوان پابند سلاسل ہیں۔
8جوالائی 2016؁ء کو مقبول نوجوان کشمیری رہنما برھان وانی کو نہایت چالاکی سے بھارتی فوج نے شہید کرڈالا۔ اس ظلم پہ احتجاج کی خاطر ہزاروں کشمیری نوجوان سڑکوں پہ نکل آئے۔ انہیں منتشر کرنے کی خاطر کشمیر میں بھارتی فوج نے اسرائیلی درندوں سے سیکھی ہوئی ایک نئی ترکیب آزمائی ۔نہتے نوجوانوں پہ چھّرے والی بندوقوں سے بوچھاڑ کی گئی جسکے نتیجے میںاب تک ایک ہزارنوجوان شہید ہوچکے ہیں جبکہ چھروّں کے زخم سے گھا ئل3,600 کشمیری نوجوانوں کی بینائی ہمیشہ کے لئے زائل ہوگئی ۔افسوس کہ انسانی حقوق کے علمبردار اور اقوام متحدہ ظلم اور بربریّت کی اس نئی لہر پہ خاموش رہے۔
5اگست2019؁ء کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر پہ نئے سرے سے غاصبانہ قبضہ کر لیا۔بھارتی آئین کی شق 370 کے تحت مقبوضہ کشمیر کو خصوصی طور پر خود مختاری عطا کی گئی تھی جبکہ انہی کے آئین کی شق 35Aکے تحت کسی غیر کشمیری کو مقبوضہ کشمیر میںبقیہ بھارت سے آکر بسنے کی مما نعت تھی نہ ہی کوئی غیر کشمیری مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خرید سکتا تھا ۔بھارت نے یک جنبش قلم اپنے ہی آئین کی یہ دونوں شقیں منسوخ کردیں اور مقبوضہ کشمیر اور لدّاخ کو بھارت میں ضم کردیا۔
دنیا اس جارحانہ عمل پہ بھی خاموش رہی ،ستمبر2019؁ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے وزیراعظم عمران نے ولولہ انگیز تقریر کی اور عالمی لیڈروں کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگانے کی کوشش کی لیکن ماسوائے ترکی کے صدر جناب رجب طیّب اردگان اور ملائیشاء کے وزیراعظم جناب مہاتیرمحمد جناب کے کسی نے اپنی تقریر میں کشمیر میں جاری ظلم وبربّریت کا ذکر کرنا مناسب نہ سمجھا جناب عمران خان نے اپنے مختلف ہم منصبوں سے اقوام متحدہ کے دورے کے دوران ملاقات کی اور مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا لیکن انکے کانوں پہ جوں تک نہ رینگی۔
اس یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پہ بھارت کے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کئے چھ ماہ گذر چکے ہیں۔ نریندرمودی کی حکومت کو بخوبی اندازہ ہے کہ کشمیری عوام بھارتی غیر قانونی اقدام کے خلاف احتجاج میں سڑکوں پہ نکل آئے گی لہذا اس نے مزید ایک لاکھ فوجی وہاں تعینات کردئے ہیں اور وادیٔ کشمیر میں کرفیونافذ کر رکھا ہے جبکہ انٹرنیٹ اور ٹیلی فون سے رابطہ بھی منقطع ہے۔ نہ ہی حزب اختلاف کے ارکان اور نہ صحافیوں کو مقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت ہے۔
پاکستان نے اس دفعہ بھی5فروری کو احتجاجی ریلیاں نکالیں اور دھواں دار تقریر یں کی لیکن یہ سب داخلی طور پر لہو گر مانے کے لئے تھا۔ بیرونی طورپر بھارت کی دھونس برقرار ہے۔ بھارتی معیشت پاکستان سے زیادہ مضبوط ہے۔ وہ ایک علاقائی طاقت ہونے کے علاوہ بڑی منڈی ہے ۔ لہذا تمام دنیا کا جھکائو بھارت کی جانب ہے حدتو یہ ہے کہ او آئی سی جو59 اسلامی ممالک کی تنظیم ہے، انسانیت اور کشمیری مسلمانوں کے حقوق پامال ہونے پر خاموش ہے کیونکہ بڑی اسلامی ریاستوں کے بھارت کے ساتھ تجارتی روابط ہیں اور وہ اپنے تعلقات اسکے ساتھ بگاڑنا نہیں چاہتے۔
اپنی طاقت کے گھمنڈ میں نریندرمودی نے اب یہ کہنا شروع کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر سے متعلق پاکستان سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے کیونکہ کشمیر بھارت کااٹوٹ انگ ہے۔ الٹا مودی نے دعویٰ کردیا ہے کہ آزاد جموں کشمیر اورگلگت بلتستان بھی بھارت کا حصہ ہیں اور پاکستان انہیں بھارت کے حوالے کرے۔ بظاہر مقامی طورپر سیمنار ،احتجاجی ریلیاں نکالنے اور انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنانے کا کوئی اثر نہیں ہوگامقبوضہ کشمیر کی حالت بدستور یہی رہے گی وہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رہیں گے۔
اگر پاکستان زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھنا چاہتا ہے اور کوشاں ہے کہ کشمیر کے عوام بھی آزادفضا میں سانس لیں تو جناب عمران خان کو خود مختلف ملکوں کے طوفانی دوروں پہ نکلنا ہوگا۔وزیر خارجہ کو بھیجنے اور وہاں تعینات سفراء کے ذریعہ پیغام بھجوانے کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ عمران خان کو دنیا عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے اگر وہ بذات خود جا کر کشمیر کا مقدمہ لڑیں گے تو ہوسکتا ہے دنیا کا ضمیر جاگے خصوصی طورپر اسلامی امت، یورپ اور امریکہ کے حکمرانوں اور پارلیمان کے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ متعدد مرتبہ ثالثی کی پیشکش کر چکے ہیں لیکن ہر مرتبہ بھارت نے انکی پیش کش کو رد کردیا۔ پاکستان نے اگر سر توڑ کوشش نہ کی کو کشمیری عوام کا مستقبل تاریک ہے۔ہم سینہ تان تان کر یہ کہتے ہیں کہ’’ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے‘‘ اور ’’ کشمیر بنے گا پا کستان لیکن ضرورت کھوکھلے نعروں سے کشمیر آزاد نہیں ہوگا۔ اسکے لئے مزید محنت کی ضرورت ہے۔

ای پیپر دی نیشن