عدل کی طاقت

ملک میں صنعتکاری کو فروغ اور عوام کو خوشحالی سے ہمکنارکرنے کے لئے حکمرانوںمیں یکسوئی محنت اور منصوبوںکو جلد مکمل کرنے کا جذبہ بے حد ضروری ہے۔ موجودہ حکومت کے وزیروں مشیروں اور مختلف ناموں سے متعلقین کی فوج ظفر موج معیشت کو درست سمت میں چلانے اور عوامکو گونا گوں مسائل و مشکلات سے نجات دلانے کی بجائے سابقہ حکمرانوں پر ہمہ وقت تنقید و تنقیص کے نشتر چلانے الزامات کی زہریلی بارش برسانے اور افراتفری پیدا کرنے کو اپنی کارکردگی سمجھ رہے ہیں۔ فرائض فراموشی کی وجہ سے کاروباری شعبوں کی کارکردگی متاثر اور عوام کی پریشانیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر کسی طرف سے انہیں ذمہ داریوںکا احساس دلایا اور ناکامیوں کی نشاندہی کیجائے تو جواب میں کھا گئے لوٹ کر لے گئے کی گردان شروع ہو جاتی ہے۔ حال ہی میں آٹے اور چینی کی کمیابی اور مہنگائی کا بھران پیدا ہوا تو عوام کی چیخ و پکار کے دوران بعض انگلیاں صاحبان اقتدار کی طرف بھی اٹھی ہیں۔ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ جناب چیف جسٹس پاکستان آٹے اور چینی کے مسئلے کو اپنے ہاتھ میں لیں تا کہ سیاست کی نذر ہونے کی بجائے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ حکومتی سرپرستی میں چلنے والے اداروں میں ریلوے سب سے بڑا ادارہ ہے۔ اس کے انچارج موجودہ حکومت کے سینئر وزیر جناب شیخ رشید احمد ہیں۔ موصوف زیادہ وقت سیاست کے کھیل تماشوں سے لطف اندوز ہونے سیاسی مخالفین کا مذاق اڑانے ان کے خلاف حاثیہ آرائی اور سیاسی پیشین گوئیاں کرنے میں گزارتے ہیں۔ اپنے فرائض منصبی ادا کرنے اور ریلوے کے معاملات دیکھنے اور سلجھانے کے لئے ان کے پاس بہت تھوڑا وقت ہوتا ہے۔ مسافر گاڑیوں کی آمد ورفت میں گھنٹوں تاخیر۔ بوگیوںمیں پانی کی عدم دستیابی صفائی کا ناقص انتظام پٹری میں ناہمواریت کانٹے والے کی غفلت سگنل میں خرابی پھاٹک بروقت بند نہ ہونے اور مسافروں کو سفر کے دوران احتجاطی تدابیر بارے باخبر نہ کرنے کی وجہ سے آئے روز حادثات ہوتے رہتے ہیں۔ دیکھا گیا ہیکہ ریلوے میں ہونے والے حادثات اکثر و بیشتر انچارج وزیر جناب رشید احمد کے سر پر سے ایسے گزر جاتے ہں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ جناب شیخ صاحب وزیراعظم صاحب کے ساتھ سائے کی طرح جڑے رہنے کو ترجیح دیتے اور انہیں درخشان مستقبل کی پیشین گوئیاں سناتے رہتے ہیں۔ شاید اس لئے کہ انہین کوئی ریل کی ناکامیوں پر سرزنش نہ کر سکے۔ چند ماہ قبل تیز گام کو حادثہ پیش آیا۔ اچانک ایک بوگی میں آگ بھڑک اٹھی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری ٹرین کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ستر سے زیادہ افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے جناب شیخ رشید احمد کو سب سے پہلے استعفا دینا چاہئے تھا۔ اس کے بعد غیر جانبدارانہ انکوائری کراتے اور مہ داری کا تعین کراتے جناب شیخ صاحب نے ایسے نہین کیا بلکہ ازخود آگ لگنے کی وجوہات کا اعلان فرما دیا۔ سرکاری تحقیقات میں بتایا گیا ہے کہ آگ شیخ صاحب کے فرمان کے مطابق تبلیغی جماعت کے کسی چولہے سے نہیں لگی بلکہ ناقض تاروں کی وجہ سے لگی تھی۔ اللہ بھلا کرے اور اجر عظیم دے جناب چیف جسٹس پاکستان کو جنہوں نے ریلوے حادثہ کا نوٹس لیا اور ستر سے زائد افراد کو موت پر سے پردہ اٹھا دیا۔ جناب چیف جسٹس آف پاکستان نے ریلوے امور کے ماہر انجینئر کی طرح ایک ایک خرابی کی وجہ بتائی۔ انہوں نے ریلوے کے انچارج وزیر سے کہا کہ اس قدر جانی و مالی نقصانات پر چند چھوٹے ملازمین کو فارغ کر کے آپ مطمئن ہو گئے ہیں سب سے بڑے افسر آپ ہیں۔ اس لئے آپ کو استعفا دینا چاہئے تھا۔ دنیا بھرمیں جپہاں کہیں ایسے واقعات ہوتے ہیں سب سے پہلے انچارج وزیر ذمہ داری قبول کرتا اور مستعفی ہوتا ہے اللہ کرے جناب شیخ صاحب آئندہ سماعت پر ریل کو نقصانات سے بچانے اور سنجیدگی سے کام کرنے کا پروگرام دے سکیں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان کو اپنا دامن انصاف آثار رکھتے ہوئے انچارج وزیر سے استعفا لینا چاہئے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ستر سے زیادہ مسافر لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ کسی صورت بدانتظامی کے ذمہ داروں کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے۔

ای پیپر دی نیشن