محب کے ہاں محبوب کی ہر شے محبوب ہے۔ جب ہر شے محبوب ہو جائے تو منزل آسان ہو جاتی ہے۔ عشق امر ہو جاتا ہے۔ محبوب کی ہر ادا، ادائے حُسن کہلاتی ہے۔ آنکھ میں کچھ کھٹکتا نہیں۔ محبوب سے متعلق ہر شے دل کو بھاتی ہے۔ محبوب کی ادائیں امر ہو جاتی ہیں۔ محب محبوب کی ادائوں کو دوام بخشتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ محبوب کا جس جا، چاہے چند لمحوں کے لئے قیام ہوا ہو، وہ جگہ محفوظ ہو جائے۔ محب، محبوب سے نسبت رکھنے والی جگہ کی تعظیم و تکریم چاہتا ہے اور مخلوق سے بھی یہی امید رکھتا ہے کہ وہ محبوب کی ادائیں دہراتے چلے جائیں۔ محب، محبوب کی ادائوں اور اس سے نسبت رکھنے والی جگہوں کو اپنی نشانیاں قرار دیتا ہے۔ قرآن مجید میں اس کے لئے شعائر اللہ کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔ جیسے صفا و مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں کہ وہاں اللہ کے مقربین کی ادائیں امر ہوئیں۔ راضیۃ المرضیہ کی منازل طے ہوئیں۔خانہ ء خدا کی تعمیر، مقربین کے نصب کئے گئے پتھر، حجر اسود کا بوسہ لینے کا عمل، مقام ابراہیم، نیز صفا و مروہ کے درمیان مقربین کے اطوار، اور کہیں زبح کرنا اور قربان ہونا، یہ ساری ادائیں امر ہو گئیں۔ ان ادائوں کو دوام ہے۔ خالق چاہتا ہے کہ لوگ اس کے مقربین کی ادائیں دہرائیں اور دہراتے چلے جائیں۔ اللہ والوں کی ادائوں کو واقعتاََ دوام ہوتا ہے۔ وہ ادائیں رہتی دنیا تک مثال ٹھہرتی ہیں۔اللہ والوں کی بیٹھکوں اور نشست گاہوں کو بھی دوام ہے۔ ہمارے چہار سُو یہ بیٹھکیں اور نشست گاہیں کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ اللہ والے جہاں خلوت نشین ہوں، خالق اور مخلوق بارے غور وفکر کریں، آنسو بہائیں،
اسے یاد کریں، ان کے رگ رگ سے اللہ اللہ کی صدا آئے، اللہ کی محبت خون بن کر وجود میں گردش کرے، وہ اللہ کا قرب مانگیں اور قرب طلب کرتے کرتے خود مقرب ہو جائیں تو پھر اللہ چاہتا ہے کہ ان مقربین کی ادائوں اور ان سے نسبت رکھنے والی جگہوں کو امر کر دوں جہاں وہ خالصتاََ اللہ کے لئے خلوت نشین ہوئے تھے اور جہاں انھوں نے سلوک کے زینے طے کئے تھے نیز تزکیہء نفس اور تصفیہ ء باطن کی منازل طے کی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ والوں کی بیٹھکوں اور نشست گاہوں پہ عجب سکوت اور سکون ہوتا ہے۔ صدیاں بیت جانے پر بھی وہ جگہیں محفوظ ہیں اور واقعتاََ محسوس ہوتا ہے کہ یہاں کسی اللہ والے نے کچھ لمحے گزارے ہیں اور یہاں کوئی روحانی واردات ہو چکی ہے۔ ان جگہوں پر احساسات جاگ اٹھتے ہیں۔ ایک خاص قرب میسر آتا ہے۔ یہ بیٹھکیں راضیۃ المرضیہ کی عملی تصویر ہیں۔ یہاں نفسانی خواہشات کا قلع قمع ہوتا ہے۔ جسمانی و روحانی امراض رفع ہوتے ہیں۔ یہاں محبت راج کرتی ہے۔ یہاں دل کی دنیا فتح کی جاتی ہے۔ آج بھی اللہ والوں کی بیٹھکیں اللہ کے قرب کا سامان ہیں۔اسی طرح کی ایک بیٹھک، نشست گاہ ’لوئی دَندی‘ کے نام سے معروف ہے جہاں حضرت شاہ عبداللطیف کاظمی قادری المعروف بری امامؒ خلوت نشین ہوئے تھے، جسے عرف عام میں چلہ گا ہ بھی کہا جاتا ہے۔ وہاں ایک غار ہے جسے دیکھتے ہی غارِ حرا اور غارِ ثور کا تصور دل و دماغ پہ چھا جاتا ہے اور تب کے سبھی مناظر آنکھوں کے سامنے تیرنے لگتے ہیں۔ غار کا غار کے ساتھ گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ لوئی دندی کا غار بھی تب گھنے جنگل کے وسط میں تھا جہاں خلوت در خلوت اور سکوت در سکوت تھا۔ بظاہر روشنی نہ تھی۔ راستہ اور سیڑھیاں بھی نہ تھیں۔ تب تنِ تنہا ایک فقیر نے مالک کا سراغ پانے کی سعی کی تھی۔ وہ بعد ازاں
امام الفقرا کہلایا اور چور پور شاہاں، نور پور شاہاں میں بدل گیا۔ اللہ والے کی باطنی روشنی نے لوگوں کے قلوب کو نور سے منور کر دیا تھا۔ لوئی دندی جانے کے لئے اب سیڑھیاں ہیں مگر تب وہاںنوکیلے پتھر تھے جب بری امامؒ نے قدم مبارک دھرے ہوں گے۔ اسی وارفتگی میں، مَیں برہنہ پا زینے طے کرتا جا رہا تھا۔ ہر قدم پہ یعنی قدم قدم پہ لذت سی لذت تھی۔ کوئی شے چبھتی تو اس چبھن سے مَیں حظ اٹھاتا۔ ایک عجب طمانیت تھی۔ یہ سفر اختتام پذیر نہ ہونے کی آرزو تھی، نیز یہ بھی کہ سفر یوں ہی جاری و ساری رہے،زینے طے ہوتے جائیں اور کبھی منزل نہ آئے۔ شاید اس لئے کہ منزل پہ سفرکی لذتیں نصیب نہیں ہوا کرتیں۔ اس حقیقت کا راز کسی لذت آشنا سے ہی پوچھا جا سکتا ہے۔
ہم جب اللہ کو جانے کی راہ اختیار کرتے ہیں تو اس راہ کی مشکلات اور کٹھن مراحل ہمارا خیر مقدم کرتے ہیں، اس لئے کہ یہ راہ کوئی پھولوں کی سیج نہیں۔ اس راہ میں کانٹے اور نوکدار پتھر ہیں۔ ان پتھروں سے ہمارے پائوں میں چھالے بھی پڑتے ہیںمگر چھالے پڑنے کا عمل بہت اہم ہے۔ یہ چھالے ہی تو قرب کا موجب ٹھہرتے ہیں۔ اس پس منظر کے ساتھ جب کوئی گیت کے یہ بول سنے تو وہ چھم چھم رو تا ہے۔ سسکتا ہے، بلکتا ہے اور اسے ہچکیاں لگتی ہیں۔ گیت کے بول دیکھئے: ’’کانٹوں پہ چلتی ہوئی آئی تیرے گائوں میں، دیکھ بَلَم تیری قسم چھالے پڑے پائوں میں۔ اللہ کے قرب کا راستہ بھی کانٹوں اور نوکیلے پتھروں سے بھرا پڑا ہے۔ ہم نے بہرصورت ننگے پائوں اس پہ سفر کرنا ہوتا ہے۔ بظاہر کٹھن ہے مگر اس جیسی لذت دوجہانوں میں نہیں۔ بقول مصطفی زیدی
؎انھیں پتھروں پہ چل کر اگر آسکو تو آئو
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
انھیں پتھروںپہ چل کر اگر آ سکو تو آئو
Feb 09, 2021