اور کتنا صبر؟

پاکستان کا عالمی کرپشن انڈیکس میں چار درجے اوپر 120 سے 124 تک چلے جانا تشویش ناک ہے۔ بھارت‘ ایران نیپال کا سکور ایک درجے جبکہ ملائشیا کا دو درجے کم ہوا ہے۔ افغانستان کا سکور تین درجے اور ترکی کا ایک درجہ بہتر ہوا ہے۔ صومالیہ اور سوڈان کرپٹ ترین ملک قرار پائے ہیں۔ کرپشن بارے زمینی حقائق کسی سے چھپے نہیں۔ ’’پیسہ پھینک تماشا دیکھ‘‘ کا کھیل ہر طرف دکھائی دیگا۔ ادنیٰ و اعلیٰ سرکاری بندہ کرپشن کے حمام میں غسل کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ہم افغانستان سے بھی تین درجے نیچے گر گئے ہیں۔ وہاں مہنگائی کی شرح پاکستان سے کم ہے۔ جی ڈی پی پاکستان سے بہتر ہے۔ وزیراعظم کے نزدیک کرپشن انڈیکس کے اعدادو شمار گزشتہ حکومتوں کے ہیں۔ جنہیں وہ چور ڈاکو ڈکلیئر کرچکے ہیں۔ عمران خان کے مطابق 2008ء سے 2018ء تک کے دس سال تاریکی کا عشرہ تھے۔ جب قرضے بڑھے اور ادارے تباہ ہوئے۔ بیرونی قرضوں کا آڈٹ کرلیجئے کہ قرضے کب لئے گئے اور کہاں خرچ ہوئے۔ ن لیگ کے چار سال میں کرپشن 117 درجے پر مستحکم رہی اور اب دو سال میں سات درجے گر گئی۔ گورننس پر بہت سے سوالیہ نشان ہیں۔ اپوزیشن حکومتی مرضی کی قانون سازی پر آمادہ نہیں۔ مستقبل میں کسی بڑے معاشی انقلاب کی توقع نہیں۔ قومی اسمبلی کی کارروائی نظر نہیں آرہی۔ اڑھائی سال کی حکمرانی کے بعد حکومت کو سابقہ ادوار کی اراکین اسمبلی کو پچاس پچاس کروڑ کے ترقیاتی فنڈز کی عوام مخالف پریکٹس دہرانا پڑ رہی ہے۔ طویل مدتی منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ چھ پنج سالہ ترقیاتی منصوبے بنائے گئے۔ 2004ء میں پانچ سالہ منصوبہ بندی کو وسط المدتی ترقیاتی فریم ورک کا نام دیا گیا۔ منگلا اور تربیلا کے بعد 50 سال میں کوئی بڑا ڈیم تعمیر نہیں ہو سکا۔ سستی ہائیڈرو بجلی اور پانی کے ذخائر کی دستیابی ہوتے ہوئے بھی پاکستان مہنگی ترین بجلی بنا رہا ہے۔ 
معیشت 44 ہزار ارب روپے کے غیرملکی قرضوں تلے دبی ہوئی ہے اور توانائی کا بحران سروں پر منڈلا رہا ہے۔ اوگرا آئے روز پٹرول اور ڈیزل مہنگا کرنے کی سمری تیار کرتا ہے۔ ڈیم طویل مدتی منصوبہ بندی سے بنتے ہیں۔ چین کی ترقی کا ماڈل طویل مدتی ہمارے ہاں پانچ سال کی مدت ہوتی ہے جبکہ چینی اگلے دس اور بیس سال کاسوچتے ہیں۔ پاکستان 70 ہزار میگاواٹ بجلی بنا سکتا ہے۔ کالالاغ ڈیم پر سازش کے تحت عمل نہ ہونے دیا گیا۔ مشرف دور میں بجلی کا کوئی نیا منصوبہ نہ بنایا گیا۔ نتیجہ میں 2008ء کے بعد بجلی کا بحران پیدا ہوا۔ 2012ء میں پنجاب اور دیگر صوبوں میں بیس 20 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ‘ یورپی ملکوں اور دیگر ملکوں نے کس طرح ترقی کی۔ طویل مدتی منصوبہ بندی طویل اقتدار سے مشروط نہیں۔ پٹرول مسلسل تیسری بار مہنگا ہوا ہے۔ دو ماہ میں 11.21 روپے مہنگا ہو کر قیمت 111 روپے 90 پیسے فی لٹر ہو گئی ہے جبکہ وزیراعظم کے نزدیک مہنگائی کم ہوئی ہے۔ کاش عمران خان عام صارف ہوتے‘ انکی موٹر سائیکل ہوتی‘ وہ خود سودا سلف خریدنے بازار جاتے۔ وہ بال کٹوانے نائی کے پاس‘ کپڑے دھلوانے دھوبی کے پاس‘ دودھ دہی قصاب سبزی فروش کے پاس خود جاتے‘ انکے بچے پرائیویٹ سکول میں پڑھتے‘ دوپہر کو اکیڈمی جاتے‘ بیماری کی صورت میں بڑے سپیشلسٹ ڈاکٹر کے پاس جانا ہوتا پھر پتہ چلتا کہ آٹے دال کا کیا بھائو ہے۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ حکومت سنبھالتے وقت مہنگائی جس شرح سے بڑھی اس سے نیچے آگئی۔ یہ بات درست اس وقت ہوتی جب پٹرول مسلسل تیسری بار سستا ہوتا۔ یوٹیلٹی بل کم ہوجاتے۔ قیمتوں میں اضافے کا ملبہ کبھی عالمی مارکیٹ لیکن زیادہ تر نوازشریف اور زرداری پر ڈالا جاتا ہے۔ 
ہر بچہ صبح انڈا مانگتا ہے۔ غریب اپنے پانچ بچوں کیلئے پانچ انڈوں کیلئے 100 روپے کہاں سے لائے۔ غریب بچوں کو چاہئے رس اور چائے پراٹھے سے ناشتہ کرا دیتے ہیں۔ معاشی حالت دگرگوں ہوتی جا رہی ہے۔ متعدد نجی کمپنیاں اپنے بیشتر ملازمین کو فارغ کر چکی ہیں۔ تنخواہوں میں پچاس فیصد تک کمی کی کارروائیاں بھی سامنے آئی ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ لوگوں کی بے روزگاری میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ڈائون سائزنگ عام ہو رہی ہے۔ غربت کی بڑی وجہ مہنگائی ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کے بعد مہنگائی کا جو طوفان اٹھا تھا‘ وہ اب تک تھمنے میں نہیں آسکا۔ جی ڈی پی کے مطابق ٹیکس کی شرح دو سال میں 11.2 فیصد سے گرا کر 9.3 فیصد ہو چکی ہے۔ گزشتہ دو سال کے دوران لیا گیا قرضہ پاکستان کی کل تاریخ میں لئے گئے قرضوں کا چالیس فیصد ہے۔ بے روزگار افراد میں چالیس لاکھ کا اضافہ ہو چکا ہے۔ کراچی کیلئے 1100 ارب روپے کا پیکیج فی الحال کالاباغ ڈیم کی طرح مدفون ہے۔ چھوٹے کاشتکاروں کی سبزیاں اگانے کی سکت کم ہو چکی ہے۔ چینی گندم اور پٹرول مافیا کی سرپرستی کون کررہا ہے۔ حکومت نے مزید ساڑھے آٹھ لاکھ کلو ٹن چینی درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہماری آبادی اس وقت بائیس کروڑ ہے اور اس میں قریب دو فیصد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔ جعلی کھادوں کا دھندا عروج پر ہے۔ زرعی ادویات اور بیجوں کی کوالٹی کا بھی کوئی معیار نہی۔ جعلسازوں‘ ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں نے صارفین کو عاجز رکھا ہے۔ حکومت نے آٹا‘ چینی‘ دال کی قیمتوں میں اضافہ روکنے کیلئے متعلقہ اداروں کو کوئی بھی قدم اٹھانے سے گریز نہ کرنے کی ہدایت کی ہے مگر اصل مہنگائی تو حکومت کی اپنی پالیسیوں کی وجہ سے بڑھ رہی ہے۔ وزیراعظم روز اول سے صبر کی تلقین کررہے ہیں۔ اب بھی یہی کہا ’’بس تھوڑا صبر اور‘‘ مہنگائی تکلیف دہ بنیادی وجہ ڈالر کی قدر میں اضافہ برآمدات بڑھنے لگیں۔ روپیہ مضبوط ہوگا‘ سب ٹھیک ہو جائیگا۔ ایل پی جی دس روپے کلو مہنگی‘ گھریلو سلنڈر 122‘ کمرشل کی قیمت بھی 471 روپے بڑھ گئی۔ آٹا‘ چینی کی ذخیرہ اندوزی بلیک مارکیٹنگ پر نہ جانے کونسی کڑی نظر رکھی جائیگی۔ پٹرول بڑھتا ہے‘ آٹا بڑھتا ہے‘ نہیں بڑھتی تو تنخواہ نہیں۔ حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں پندرہ پندرہ دنوں کے وقفے سے پانچویں بار اضافہ کردیا ہے۔ پٹرولیم کی عالمی قیمتوں میں تو کمی ہوئی ہے۔ اس لئے اضافے کا کوئی جواز نہیں۔ حکومت پٹرولیم مصنوعات ہی نہیں‘ بجلی اور گیس کے نرخ بھی مسلسل بڑھا رہی ہے۔ یہ سب کچھ آئی ایم ایف کے دبائو کے تحت کررہی ہے۔
عمارتیں گرانے اور بلڈوز کرنے سے بہتر ہے کہ بھاری جرمانے وصول کرلئے جائیں۔ اوقاف ریلوے متروکہ وقف املاک کی ہزاروں ایکڑ زمینوں پر ناجائز تعمیرات اور قبضے ہیں۔ یہ انہی محکموں کے اہلکاروں کی مہربانیاں ہیں۔ قبرستانوں پر تعمیرات کی اجازت کس نے دے رکھی ہے۔ تجاوزات عمارتوں کی شکل میں نہیں‘ اختیارات کی تجاوزات کا تو کوئی حد نہیں۔ اختیارات کی تجاوزات کو کون مسمار کریگا۔ ہیلتھ کارڈ کی گونج ہے لیکن یہ کارڈ سرکاری ہسپتالوں میں بھیڑ بھاڑ کا سامنا کرنے والوں کیلئے ہے۔
براڈشیٹ سے معاہدے کا مقصد لوٹی ہوئی دولت واپس لانا نہیں بلکہ کمیشن کا حصول تھا۔ براڈشیٹ ایل ایل سی نے دھمکی دی ہے کہ اگر حکومت پاکستان نے اسے سود قرضوں سے متعلق فیصلے اور قانونی اخراجات کی مد میں مزید 2.2 ملین ڈالر فوری ادا نہ کئے تو پاکستان کے اثاثوں کی ضبطگی کی مزید کارروائی کی جائیگی۔ واجبات سے متعلق فیصلے کے بقایاجات پر 5.889 ڈالر سود ہے اور اس میں 267.72 ڈالر یومیہ ی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے اور براڈشیٹ کی جانب سے انفورسمنٹ کے اخراجات کم و بیش 800,00 ڈالر ہو چکے ہیں۔ 

پروفیسر خالد محمود ہاشمی

ای پیپر دی نیشن