مولانا رومی سے کسی نے پوچھا زہر کیا ہے؟ فرمایا ’’ہر وہ چیز جو ہماری ضرورت سے زیادہ ہے۔ جیسے طاقت۔ اقدار۔ دولت۔ بھوک۔ لالچ۔ محبت۔ نفرت۔‘‘ اگر کبھی غور فرمائیں تو پتہ چلتا ہے کہ خاموش انسان خاموش پانی کی طرح گہرے ہوتے ہیں۔ خاموشی خود ایک راز ہے اور ہر صاحب اسرار خاموش رہنا پسند کرتا ہے۔ خاموشی دانا کا زیور ہے اور احمق کا بھرم۔ ہمیں یقین رکھنا چاہئے کہ سب کچھ قابل مرمت ہے سوائے اعتبار کے۔ حکم خداوندی ہے کہ ’’ایک دوسرے کو طعنہ نہ دیا کرو۔‘‘ القرآن
انسانی فطرت ہے کہ جب طاقت چھن جائے تو وہ ہر فیصلہ جذبات سے کرتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ عقل کا غلط فیصلہ بھی جذبات کے صحیح فیصلے سے بہتر ہوتا ہے۔ میں ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں کہ منفی سوچ غلط نمبر کی عینک کی طرح ہوتی ہے۔ ہر منظر دھندلا۔ ہر راستہ ٹیڑھا اور ہر چہرہ بگڑا ہوا ہی نظرآتا ہے اور وہ یہ بھول جاتا ہے کہ اس نے اپنا شرافت۔ دیانتداری اور حب الوطنی کا جو نقاب اوڑھا ہوا تھا ،اسے حصول اقتدار کی تیز ہوا اڑا کر لے گئی ہے۔
میں زندگی کے نشیب وفراز سے گزرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ بعض اوقات کوئی ہماری خاموشی کا بھی مستحق نہیں ہوتا اور ہم اسے احساسات کے ترجمے سنارہے ہوتے ہیں۔ میرا یقین کامل ہے کہ مشکلات ہمیشہ بہترین لوگوں کے حصے میں آتی ہیں کیونکہ وہ ان کو بہترین طریقے سے انجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بحیثیت سیاسی کارکن میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان اپنے پرائے ایرے غیرے کچھ نتھو خیروں کے زخم کھا کر اپنی منزل کے انتہائی قریب ہے۔ محبان وطن اور ذمہ داران وطن لوگوں کے پاس غلطی کی گنجائش نہیں ہے، کیونکہ کچھ نام نہاد نگہبان چمن اس وقت بلیک میلنگ کی آخری حدود کو بھی عبور کرچکے ہیں۔ آج اگر وہ اپنی بلیک میلنگ میں کامیاب ہوگئے تو یقین جانیں پاکستان نئے زخم کھانے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ میں آج اہل قلم دانشوروں سے بھی باادب درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ اندھی گولی ایک آدمی کی جان لیتی ہے جبکہ خیانت کرنے والا قلم قوموں کو ہلاک کرتا ہے۔ آج ہمیں تجدید عہد کرنا ہوگا کہ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کیونکہ ہماری مائوں۔ بہنوں۔ بیٹیوں کے سروں پر دوپٹے پاکستان کی وجہ سے محفوظ ہیں۔صاحبان اقتدار بہترین اصلاحات کے ذریعے گلی گلی میں اٹھنے والے بے ہنگم شور کو بند کرسکتے ہیں مگر اس کے لئے اپنی غلطیوں پر بھی غور کرنا ضروری ہے۔ میرا ایمان ہے کہ زندگی کے جس چاک کو عقل بھی نہیں سی سکتی، محبت اسے اپنی سوئی اور تار کے بغیر سی لیتی ہے۔آج پاکستان کے زخموں پر مرہم رکھ کراور پاکستانی قوم کو جینے کا حق دے کر ہی ہم اس دلدل سے نکل سکتے ہیں۔ اس کے لئے ہر صورت دال روٹی سستی کرنا پڑے گی۔ قوم شاید مزید انتظار کی متحمل نہیں ہوسکتی کیونکہ
حیاتی تھک گئی گنجل کڈ دے
جیون دا ہالے وَل نئیں آیا
کل اَگّے اَج گروی رکھیا
کدی وی اوترا کل نئیں آیا
اللہ کریم نے جو موقع دیا ہے، اسے بہترین طریقے سے آگے بڑھانا ہوگا اور اپنا کردار ادا کرکے پاکستان کو اس کی منزل پر لے جانا ہوگا۔ وگرنہ اسے بے حسی کہہ لیں یا ناقدری، انسان نے ہمیشہ اپنے خیرخواہ کو اس کے چلے جانے کے بعد ہی یاد کیا اور پہچانا ہے۔ اور پھر ٹرک کے پیچھے تصویر لگا کر لکھ دیتے ہیں
’’تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد‘‘
ہمیں وقت کی قدر کرنی چاہئے اور جناب علیؓ کے فرمان کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ آج جو دنیا میں تمہارے پاس ہے، تم سے پہلے اس کا مالک کوئی اور تھا اور تمہارے بعد کوئی اور ہوگا۔ جناب وزیراعظم صاحب اب اگر مشکل کام کا بیڑا اٹھایا ہے تو اسے ادھورا نہ چھوڑنا اور سنو امام شافعیؒ کیا فرما رہے ہیں ’’ جب لوگ تمہیں تکلیف میں اکیلا چھوڑ دیں، جان لو کہ اللہ تمہارے کام کا ذمہ خود لینا چاہتا ہے۔‘‘بس آپ آگے بڑھتے جائیں۔ بہترین اصلاحات اور جذبہ حب الوطنی کے ذریعے پاکستانی قوم کے نوجوانوں کو وہ ہمت اور حوصلہ عطا کریں کہ یہ کبھی پاکستان کا سبز ہلالی پرچم سرنگوں نہ ہونے دیں۔ زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے والے کبھی جاہلوں سے بحث نہیں کرتے کیونکہ جاہل سے بحث کرنا صرف ایک ہی بات ثابت کرتا ہے کہ
’’جاہل ایک نہیں دو ہیں‘‘
زندگی میں وہ انسان کامیاب ترین کہلاتا ہے جو بہترین منصوبہ سازی میں موت کو شامل کرتا ہے ، وگرنہ تو انسان اتنا غافل منصوبہ ساز ہے کہ وہ اپنی ساری پلاننگ میں اپنی موت کو شامل ہی نہیں کرتا۔اس وقت اپنے جوڈیشل سسٹم سے لے کر اپنے معاشی نظام کو ٹھیک کرنا ہے۔ اور جب ہم اللہ کریم اور محبوب کریم سے رہنمائی لیں گے تو ہماری کشتی کو کنارے لگنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
جب لیا نام محمد میں نے دعا سے پہلے
ہوگئی مجھ پہ عطا خطا سے پہلے
آج ہم اپنا کردار جو ہمیں اس قوم نے تفویض کیا ہے، اسے اس قوم کی بہتری کے لئے ادا کرجائیں تو آپ کا نام تاریخ میں سنہرے الفاظ میں لکھا جائے گا۔آج پاکستان میں جو جتھے اپنے ذاتی مفاد کے لئے پاکستان کے تشخص کو پامال کررہے ہیں، انہیں اپنے فیصلوں پر ازسرنو غور کرنا چاہئے۔ جس درخت کے پھل کھائے ہوں، اسے آگ لگانے سے بہرحال گریز کرنا چاہئے کیونکہ ’’یہ انسانیت نہیں، درندگی ہے۔‘‘ انہیں سوچنا پڑے گا کہ وہ جس راستے پر گامزن ہیں، اس کی منزل بربادی کے سوا کچھ نہیں ہے۔پاکستان کا مستقبل تابناک ہے۔ انشاء اللہ
آگ لگانے والوں کو کہاں خبر
رْخ ہواوں نے بدلا تو خاک وہ بھی ہوجائیں گے