ملک میں سیاسی سرگرمیوں میں تیزی نظر آ رہی ہے۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے رابطے بحال کر رہی ہیں۔ ہر طرف بات چیت ہوتی نظر آ رہی ہے۔ آصف علی زرداری حکومت کے خلاف حکومتی اتحادیوں سے بات چیت کر رہے ہیں جب کہ مسلم لیگ نون بھی نمائشی ہی سمجھیں لیکن حکومت کے اتحادیوں کا ذہن بدلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی میں بھی دوریاں ختم ہوئیں جبکہ آصف علی زرداری چودھری برادران سے ملے، متحدہ کے لوگوں سے میاں شہباز شریف ملے لیکن ابتدائی طور پر آصف علی زرداری اور شہباز شریف دونوں کو خاص کامیابی نہیں ملی۔ اب مسلم لیگ نون اور مسلم لیگ ق میں بھی ملاقاتوں کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک بڑی پیشرفت ہے۔ یہ ملاقات ہو اس کا کچھ نتیجہ نہ بھی نکلے لیکن پھر بھی اس ملاقات سے بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ کم از کم یہ بات تو واضح ہو جائے گی کہ نواز شریف کے بجائے میاں شہباز شریف نے شاٹس کھیلنا شروع کیے ہیں۔ کچھ باخبر سیاسی دوستوں کے مطابق مسلم لیگ نون کے صدر میاں شہباز شریف کی آج یا کل چودھری برادران سے ملاقات ہو سکتی ہے۔ مسلم لیگ ن کی جانب سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے۔ ممکن ہے کل یا پرسوں مسلم لیگ کے بڑے برسوں بعد سیاسی گفتگو کریں لیکن ابھی تک ملاقات کا وقت طے نہیں ہوا۔ مسلم لیگ نون کے صدر کے بیٹے میاں حمزہ شہباز نے سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کے بیٹے مونس الٰہی کو فون بھی کیا ہے۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے کارڈز کھیل رہی ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں بالخصوص اپوزیشن جماعتوں کے پاس ملاقاتوں کے علاوہ کوئی کام نہیں ہے۔ ویسے تو پی ٹی آئی کو یہ کام کرنا چاہیے تھا کہ وہ اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ ساتھ حزب اختلاف سے بھی رابطے بحال رکھتی، بات چیت کے دروازے کھلے رہتے اور ملک و قوم کے بہتر مستقبل میں سب سیاست دانوں کو اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ملتا بہرحال یہ مثالی صورت حال ہے ایسا نہ ہو سکا اور اب حکمران جماعت کے علاوہ سب ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ رہے ہیں۔ حتیٰ کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون بھی ایک صفحے پر آ چکے ہیں۔ گوکہ یہ صفحہ الٹی سیدھی لائنوں اور نہایت سخت بیانات اور نامناسب الفاظ سے بھرا ہوا ہے لیکن پھر بھی سیاسی مفادات نے دونوں کو ایک کر دیا ہے۔
حقیقت یہ بھی ہے کہ بھلے کتنا ہی دونوں اکٹھے نہ ہو جائیں لیکن دونوں جماعتوں میں اعلیٰ سطح پر ایک دوسرے کی شدید مخالفت پائی جاتی ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی میں تمام فیصلے آصف علی زرداری کرتے ہیں لیکن بلاول بھٹو زرداری بھی اپنے فیصلوں میں مکمل آزاد اور با اختیار ہیں۔ آصف زرداری بھلے مفاہمتی سیاست کو آگے بڑھا رہے ہیں لیکن بلاول بھٹو زرداری سمجھتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی اگر سندھ تک محدود ہوئی ہے، پنجاب میں اس کا کردار وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوا ہے تو اس میں سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ کے ساتھ سیاسی اتحاد نے پہنچایا ہے۔ گذشتہ چند سال کے تجربات کو دیکھتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری مستقبل یہ غلطی نہیں دہرانا چاہتے وہ سیاسی طور پر مسلم لیگ کے ساتھ بات چیت کی حد تک تو تعلقات رکھنے کو برا نہیں سمجھتے لیکن ایسا کوئی اتحاد جس سے پنجاب میں ان کا کردار محدود ہو جائے ایسا کوئی فیصلہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پیپلز پارٹی میں یہ سوچ بھی پائی جاتی ہے کہ مسلم لیگ نون پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ جب انہیں ضرورت ہوتی ہے اس وقت ہر کام کے لیے تیار ہوتے ہیں اور مشکل وقت نکلنے پر سیاسی ساتھیوں کو چھوڑ کر کسی اور طرف نکل جاتے ہیں۔
دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ نون بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے حوالے سے منفی رائے رکھتی ہے۔ نون لیگ کی اعلیٰ قیادت ملک کی کمزور معیشت، کرپشن اور انتظامی خرابیوں کی ذمہ دار پاکستان پیپلز پارٹی کو سمجھتی ہے اور اس حوالے سے کراچی اور سندھ کو مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ نون لیگ کی اعلیٰ قیادت کی سطح پر سیاسی نشستوں میں کھلم کھلا یہ باتیں ہوتی ہیں اور وہاں یہ سوچ ںہت مضبوط ہے کہ ملک میں کرپشن کے اضافے کی ذمہ دار پاکستان پیپلز پارٹی ہے۔ پیپلز پارٹی نے بنیادی ڈھانچے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ یوں دونوں جماعتیں مختلف سیاسی سوچ رکھنے کے باوجود باامر مجبوری اکٹھی ہوئی ہیں۔ مسلم لیگ نون یہ بھی سمجھتی ہے کہ بیڈ گورننس اور کرپشن کے خاتمے کا نعرہ اگر سندھ سے نہیں ہو گا تو ملک کے مسائل کبھی حل نہیں ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی دونوں جماعتوں میں اختلافات پیدا ہوتے ہیں تو دونوں طرف سے نہایت سخت زبان استعمال ہوتی ہے۔ درحقیقت وہ سخت زبان ہی دونوں کی ایک دوسرے بارے حقیقی سوچ ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی تو نون لیگ کو ملک کے لیے خطرہ بھی قرار دیتی رہی ہے۔ یوں اس وقتی اتحاد کے پیچھے ملک و قوم کا کوئی مفاد نہیں ہے بلکہ یہ سارا کھیل مفادات کا ہے۔ میثاق جمہوریت کے نام پر بھی ان دونوں جماعتوں نے باریاں لگائیں، عوام کو بے وقوف بنایا اور عوام کے پاس یہ چوائس ہی نہ رہی کہ دونوں جماعتوں میں سے کون اچھا یا برا ہے۔ پنجاب میں مسلم لیگ نون جیت جاتی ہے تو سندھ پر پاکستان پیپلز پارٹی کا قبضہ ہے دونوں جماعتیں اپنے اپنے صوبوں میں برتری کے ساتھ سیاست کرتے ہوئے نظر آتی ہیں۔ اب یہ فیصلہ عوام نے کرنا ہے کہ انہوں نے ان دونوں سیاسی جماعتوں کے جھوٹے دعوؤں اور وعدوں پر کب تک اعتبار کرنا ہے اور انہیں کتنی جگہ دینی ہے۔ متبادل قیادت کی طرف جانا ہے یا بار بار آزمائے ہوئے اور ناکام لوگوں کو موقع دیتے رہنا ہے۔