بدھ ، 7 رجب المرجب ، 1443ھ، 9فروری 2022ء

شہزاد اکبر کو سسٹم کی سمجھ نہ تھی۔ زلفی بخاری 
واہ کیا دور کی کوڑی لائے ہیں زلفی بخاری۔ لگتا ہے لندن کی جمہوری آب ہوا کے اثر کے تحت وہ یہ سچ کہہ رہے ہیں۔ مگر اس سسٹم میں صرف ایک شہزاد اکبر ہی کیا جتنے بھی مشیر ہیں کسی کے سر بھی ہاتھ رکھ لیں یا انگلی سے اس طرف اشارہ کر کے بتائیں ان کی کارکردگی کیا ہے۔ ان کو سسٹم کی کونسی سمجھ ہے۔
 قبلہ زلفی بخاری بخوبی جانتے ہیں کہ یہاں تو آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے۔ مگر مصلحتاً خاموش ہیں۔ جبھی تو حکومت صرف مشیروں پر ہی اکتفا نہیں کرتی۔ بے شمار حکومتی وزرا بھی حق ترجمانی ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ 
لگتا ہے سارے وزرا کا کام یہی ہے کہ وہ کارکردگی دکھانے کی بجائے حکومتی ترجمانی کرتے پھریں۔ مگر پھر بھی ’’حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا‘‘ حکومت مطمئن نہیں لگتی۔ زلفی بخاری بھی جانتے ہیں کہ مشیرانہ زندگی کیسی ہوتی ہے۔ قدم قدم پر مزاج یار کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ صرف یہی نہیں حکومت کی ناک کے بال بنے مہربانوں قدردانوں کو بھی رعایت دینی پڑتی ہے۔
 اب لندن میں بخاری جی کہہ رہے ہیں کہ اب ان کی بھی چھٹی ہونی چاہیے جنہوں نے شہزاد اکبر کے بارے میں سب اچھا کی رپورٹ دی تھی۔ نہ بابا نہ۔ایسا نہیں ہوتا۔ نجانے کون سے اے ٹی ایم کی طرف سے اسکی سفارشی چٹ یعنی رپورٹ آئی ہو۔ اب یکدم سب اے ٹی ایمز کو تالا تو نہیں لگایا جا سکتا۔ کچھ نہ کچھ تو کھلے رکھنا پڑتے ہیں۔ 
٭٭٭٭
خیرپور میں بیوی کا جگر شوہر کو لگانے کا کامیاب آپریشن
محبت ہو تو ایسی ہو۔ صرف فلمی نغمے گنگنا کر محبت کا اظہار کرنا محبت نہیں۔ کسی کیلئے جاں نثار کرنے کا جذبہ محبت کہلاتا ہے۔ اب سندھ کے شہر بھٹ شاہ میںایسی ہی محبت کی کہانی تحریر ہوئی جو آج پورے پاکستان میں سوشل میڈیا کی بدولت پسند کی جا رہی ہے۔ بھٹ شاہ کا محمد خان جگر کی بیماری میں مبتلا تھا۔ اس کا جگر ناکارہ ہو رہا تھا۔ اس پر اس کی بیوی نے اپنا جگر اپنے شوہر کو عطیہ کر دیا۔ یوں آج محمد خان کے جگر کے ساتھ اس کی بیوی کا جگر اسے اور جی دار بنا رہا ہے۔
 عورتیں عام طورپر کسی کو اپنی آنکھ کا کاجل نہ دیں مگر اس خاتون کو حق ہے کہ وہ اب اپنے مجازی خدا کو کہہ سکتی ہے کہ تُو تو میرا جگر ہے۔ اس سے بہت پہلے 1970ء ، 1980ء کی دہائی میں کراچی میں ایک خاتون نے ایسی ہی بے مثال محبت کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی ایک آنکھ اپنے نابینا شوہر کو عطیہ کی تھی جس کے بعد وہ دونوں مل جل کر دنیا کو دیکھنے لگے۔ 
اب سندھ میں ہی ڈاکٹروں کے مطابق  جگر کے آپریشن کے بعد دونوں میاں بیوی روبصحت ہیں۔ حکومت سندھ کے حصے میںیہ نیکی ضرور آئی ہے کہ عبدالقادر جیلانی انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز گمبٹ خیرپور جیسے چھوٹے شہر میں اتنا بڑا اور اہم آپریشن وہ بھی بالکل مفت سرکاری خرچے پر ہوا جس کیلئے حکومت سندھ ، ڈاکٹر اور ہسپتال کا دیگر عملہ بھی مبارکباد کا مستحق ہے۔
٭٭٭٭
کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے جیسن روئے نے لاہور قلندر کو رُلا دیا 
گزشتہ شب سچ کہیں تو پی ایس ایل میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے نہیں بیٹر جیسن روئے نے لاہور قلندر کو ہرا دیا۔ سچ کہیں تو جیتا ہوا میچ لاہور قلندر کے جبڑوں سے چھین لیا۔ اسے ہم ون مین شو بھی کہہ سکتے ہیں۔ 
لاہور قلندرنے بے شک شاندار کھیل پیش کیا اور 20 اوورز میں 5 وکٹوں پر 204 رنز کا پہاڑ کھڑا کر دیا لیکن جواب میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اوپنر جیسن روئے نے قلندرز کی دھمال کو بے حال کر دیا اور 116 رنز کی دھواں دھار اننگز کھیل کر لاہور قلندرز کے بائولروں کو نڈھال کر دیا اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو کامیابی کا حقدار بنا دیا۔
 کھیل میں ہار جیت ہوتی ہے۔ ایک کامیاب اور دوسرا ناکام ہوتا ہے۔ لاہور قلندر والوں کے ساتھ بدقسمتی کا معاملہ یہ ہے کہ اگر وہ یہ میچ جیت جاتی تو پی ایس ایل کے اگلے مرحلے میں جو لاہور میں 10 فروری سے شروع ہو رہا ہے ایک مان اور شان کے ساتھ داخل ہوتے۔ 
مگر افسوس جیسن روئے نے قلندرز کو رُلا کررکھ دیا لیکن دل چھوٹا کرنے کی بات نہیں۔ لاہور قلندر کے کھلاڑی بہت اچھا کھیلے۔ 204 رنز معمولی نہیںتھے۔ 20 اوورزمیں یہ رنز کامیابی کا زینہ تصور ہوتے ہیں۔ مگر اب قسمت کا کیا کیا جائے ’’دور چار ہاتھ آ کے لب بام رہ گیا‘‘ شاید اسی لیے کہا جاتا ہے۔ مگر اب بھی لاہور قلندر پانسہ پلٹنے کی طاقت رکھتی ہے۔ 
٭٭٭٭
پشاور میں چھاپہ ، پیناڈول کے 27 ہزار سے زیادہ کارٹن برآمد 
کیا دانشمند لوگ ہیں جنہوں نے میکرون میں شدت آتی دیکھ کر احتیاطاً پہلے ہی پینا ڈول جمع کرنا شروع کر دی تھی کہ جب یہ کمیاب ہو گی تو وہ اپنا جمع شدہ ذخیرہ نکال کر بازار میں پینا ڈول کے لیے دربدر خوار ہونے والوں کو مہنگے داموں فروخت کر کے آم کے آم گٹھلیوں کے دام کھرے کریں گے۔ گھن آتی ہے ایسے لوگوں سے جو بیماروں کو بھی نہیں بخشتے۔ ان کی مجبوریوں سے بھی فائدہ اٹھانے کے چکر میں انسانی قدروں کو بھی بھلا بیٹھتے ہیں۔
 اس سے بھی زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ گھنائونا عمل کرنے والے بھی ہم مسلمان ہیں۔ نمازی اور حاجی بھی ہوں گے۔ مگر افسوس ان کو بھول گیا ہے کہ ان کا دین تو دین رحمت ہے جو انسانوں کے لیے رحمت بن کر آیا ہے۔ ہمارا دین تو راستے سے تکلیف پہنچانے والا پتھر اور کانٹا تک اٹھانے کا درس دیتا ہے۔ مگر افسوس ہم اس کے برعکس ظالموں والا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ پشاور میں ان ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کارروائی کرنا ضروری ہے۔ ساتھ ہی دیگر مقامات پر بھی ذخیرہ کی گئی ادویات کو برآمد کر کے بازار سے بخار اور درد کی دوا پیناڈول کے علاوہ دوسری ادویات کی قلت ختم کرائی جائے۔ اسکے ساتھ ساتھ ادویات کی قیمتیں بے تحاشہ بڑھانے کے رحجان کی بھی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن