غزوئہ تبوک

تبوک مدینہ منورہ سے تقریباً 700 کلو میٹر کی مسافت پر دمشق کے راستے میں واقع ہے۔ اس غزوئہ کا نام تبوک اس لئے رکھا گیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند صحابہ کو ایک چشمے سے پانی حاصل کرتے دیکھا تو فرمایا "تم تبوک پر اُترے ہو۔ میں ا س غزوئہ کا نام تبوک رکھتا ہوں"۔ فتح مکہ کے سات ماہ بعد ماہ رجب 9ہجری میں غزوئہ تبوک پیش آیا تھا۔ سورئہ توبہ کی کچھ آیات غزوئہ تبوک پر روانگی سے قبل کچھ دورانِ سفر اور کچھ مدینہ واپسی کے بعد نازل ہوئیں ۔ یہ غزوئہ مومنوں اور منافقوں کے درمیان کسوٹی ثابت ہوا۔ ابو عامر فاسق غزوئہ الاحزاب کے بعد بھاگ کر قیصر روم کے پاس پہنچ گیا اور اُسے مسلمانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اُٹھانے کے لئے اُکسا رہا تھا۔ وہ فتح مکہ اور بنی ہوازن کی شکست سے بہت پریشان تھا او ر آدھی دنیا کا حکمران ہونے کا اُسے بہت گھمنڈ تھا۔ اور مسلمانوں سے ٹکر لینے کی تیاریوں کی خبریں مسلسل مدینہ پہنچ رہیں تھیں۔ شام سے آئے ہوئے سوداگروں نے جب قیصر روم کی جنگی تیاریوں کی خبروں کی تصدیق کی تو حضور اقدسؐ نے ضروری سمجھا کہ نہ تو رومیوں کو پہل کرنے کا موقعہ دیا جائے اور نہ اُن کو عرب کی سرحدوں کے اندر داخل ہونے دیا جائے۔ اس سے پہلے کے غزئوات میں صرف تیاری کا حکمِ نبویؐ ہوا کرتا تھا اور تفصیل نہیں بتائی جاتی تھی۔ غزوئہ تبوک کے لئے مسلمانوں کو ذہنی طور پر تیار کرنے کے لئے نامساعد حالات اور منزل کی دوری کی پوری تفصیل بتا کر مومنوں کو دور دراز سفر کے لئے مناسب تیاری کا حکم دیا۔ اُس وقت موسم انتہائی گرم اور عین فصل پکنے کے دن تھے۔ ایک طرف آپؐ مسلمانوں کو گھروں سے نکلنے کے لئے حکم فرما رہے تھے تو دوسری طرف منافقین اُن کو گرمی کی شدت، دشوار گزار اور طویل سفر سے ڈرا کر اُن کو روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہم کی تیاری کے لئے مختلف قبائل سے بھی لشکر جمع کئے۔ مالی حیثیت کو مضبوط کرنے کے لئے صاحب ثروت صحابہ کرام ؓ کو عطیات جمع کرانے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا "دینوی زندگی کا سرمایہ آخرت میں بہت کم ہے "۔ اس موقعہ پر حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنے تمام گھریلو اثاثے کا آدھا حصہ حضورؐ کے قدموں میں ڈال دیا۔ حضورؐ نے پوچھا تو عرض کیا "یا رسول اللہؐ! اتنا ہی حصہ گھر والوں کے لئے چھوڑ آیا ہوں"۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اپنا کل اثاثہ لا کر مسجدِ نبویؐ میں ڈھیر کر دیا۔ حضورؐ نے پوچھا کچھ گھر والوں کے لئے چھوڑا ہے تو عرض کیا ــ"یا رسول اللہؐ! اللہ اور اُس کے رسولؐ کا نام چھوڑا ہے"۔حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ، حضرت عباسؓ، حضرت طلحہ ؓ، حضرت سعد ابن عبادہؓ، محمدؓ بن سلمہ اور حضرت عاصمؓ بن عدی نے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اپنا اپنا حصہ پیش کیا۔ سب سے بڑا عطیہ حضرت عثمان غنی  ؓ نے پیش کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے مسجدِ نبویؐ میں مال و زر اور اجناس خوردنی کے ڈھیر لگ گئے۔ خواتین نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنے زیورات عطیات کے طور پر پیش کئے۔ حضورؐ نے ان عطیات سے مجاہدین کو ضروری جنگی اور دوسرا سامان خریدنے کی تلقین فرمائی۔ اس طویل اور دشوار گزارسفر کے پیشِ نظر لوگوں کو اپنے ساتھ زیادہ سے زیادہ جوتے رکھنے کی نصحیت فرمائی۔ 30 ہزار مجاہدین پر مشتمل یہ لشکر جس میں 10 ہزار گھڑ سوار اور 12 ہزار شُتر سوار بھی شامل تھے ایک ایسی حکومت سے ٹکر لینے کے لئے جس کی طاقت کا لوہا آدھی دُنیا مان چکی تھی حضرت ابو بکر صدیق  ؓ کی کمان میں مدینہ منورہ سے روانہ ہوااور تقریباً 15 دن کی مسافت طے کر کے تبوک پہنچا۔20دن وہاں قیام ہوا اور تقریباً 15 دن واپسی پر لگے۔ تبوک پہنچنے کے بعد حضورؐ نے اللہ تعالیٰ کی کچھ حمد و ثنا بیان کر کے 50 پچاس فقرات پر مشتمل ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس کا ہر جملہ آبدار موتیوں کی لڑی ہے۔ جس کی فصاحت ایسی کہ ہر لفظ ایک گوہر آبدار اور بلاغت ایسی کہ فطرتِ انسانی کا کوئی گوشہ چھوٹنے نہیں پایا۔ خطبہ کے آخر میں تین مرتبہ استغفر اللہ فرمایا۔ ایک رات ایک مجاہد کو قبر میں دفناتے ہوئے حضورؐ نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو مخاطب کر کے فرمایا "اپنے بھائی کو میری طرف کرو"۔ اس دوران حضرت بلالؓ چراغ لئے کھڑے تھے۔ جب حضورؐ نے مرحوم کے لئے یہ دعا فرمائی "الہیٰ میں آج کی شام اس سے خوش تھا تو بھی راضی ہو جا "۔ حضرت عبداللہ ؓ بن مسعود نے جو اس موقع پر موجود تھے کہا "کاش اس لحد میں لٹایا جانے والا میں ہوتا "۔تبوک میں آپؐ نے تقریباً 20دن دشمن کا انتظار کیا مگر کوئی مقابلے کے لئے نہ آیا۔ دراصل اتنے دشوار گزار راستوں میں 30 ہزار مجاہدین سمیت حضورؐ کے عرب سرحدوں تک پہنچ جانے سے دشمن اس قدر مرعوب ہو گیا کہ اس طرح کا رُخ کرنے کی ہمت ہی نہ ہو سکی۔ او ر وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ مسلمانوں کی کمزوریوں کی جو خبریں اُس کو دی گئی تھیں وہ غلط تھیں۔ ایک مخبر کی اطلاع پر وہ نفسیاتی طور پر اس قدر متاثر ہوا کہ مسلمان ہونے کا ارادہ کر لیا۔ اس طرح نفسیاتی فتح سیاسی فتح میں تبدیل ہو گئی۔ آپؐ نے آس پاس کے حکمرانوں کے پاس اپنے قاصد بھیجے۔ بعض نے نذرانے بھیجے اور بعض نے جزیہ دینا منظور کر لیا۔ اہل ایلہ کو امان نامہ عطا ہوا تھا۔ حضورؐ نے مختلف معاہدات کے ذریعے اسلامی مملکت کی شمالی سرحدوں کو مضبوط کر لیا۔ رومی اور نصرانی مقابلے کے لئے نہ آئے۔ ہرقل نے حمص سے حرکت نہ کی۔ چنانچہ 20 دن انتظار کرنے کے بعد آپؐ نے مہاجرین اور انصار سے مشورہ کیا کہ آگے بڑھنا چاہئیے یا واپس مدینہ جانا چاہئیے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا جیسے آپؐ حکم کریں ہم حاضر ہیں۔حضورؐ نے فرمایا "اگر ایسا ہوتا تو آپؓ سے کیوں پوچھتا"۔صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ قیصر مسلمانوں کا مرعوب ہو چکا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ مقابلے کے لئے نہیں آیا۔ اس لئے آگے بڑھنے کی بجائے واپسی زیادہ بہتر ہے۔ چنانچہ آپؐ نے واپسی کا حکم فرمایا۔ جو منافق اس لشکر میں شامل تھے وہ واپسی سے ناخوش تھے۔ چنانچہ اُن میں سے بارہ منافقوں نے سازش کر کے آپؐ کو پہاڑی سے گرانے کی سازش کی۔ اللہ نے آپؐ کو بذریعہ وحی اس سازش کی خبر کر دی۔ چنانچہ جب آپؐ ایک پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے تو کچھ لوگوں کے پائوں کی آہٹ سُنی تو حضرت حذیفہ ؓ کو چوکنا کر دیا۔جب منافقین کو علم ہو گیا کہ اُن کی سازش بے نقاب ہو گئی ہے تو بھاگ گئے۔ حضرت حذیفہؓ نے اُن کی سواریوں سے اُن منافقوں کو پہچان لیا مگر حضورؐ نے اُن کے خلاف کوئی کاروائی کرنے سے منع فرمایا۔ اُن سازشیوں کے نام حضرت حذیفہؓ کو بتاتے ہوئے فرمایا کسی پر ظاہر نہ کرنا۔ اسی لئے حضرت حذیفہؓ کو صاحب سر رسولؐ (رازدان) کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ شعبان کے آخر یا رمضان کے شروع میں آپؐ مدینہ منورہ واپس پہنچے۔ سب سے پہلے مسجدِ نبویؐ تشریف لے گئے۔ دو گانہ نفل ادا کئے اور لوگوں کو شرفِ ملاقات بخشا۔غزوئہ تبوک کے نتائج اور اثرات:   (1)اس طویل اور کھٹن سفر پر کامیاب پیش قدمی سے دشمن مرعوب ہو گیا اور بغیر جنگ کے شکست قبول کر لی (2)  مسلمانوں کی عسکری برتری کو تمام فریقین نے تسلیم کر لیا (3) آس پاس کی حکومتیں اور عرب قبائل اسلام کی طرف مائل ہوئے  (4)  بغیر جنگ کے فتح کے تمام فوائد حاصل ہوئے (5)  اسلام کی بالا دستی قبول کرتے ہوئے دوردراز علاقوں سے آ کر لوگوں نے اسلام قبول کرنا شروع کر دیا (6)  مسلمانوں کا مورال بلند ہو گیااور مشکل سے مشکل حالات میں بڑی سے بڑی طاقت سے ٹکر لینے کا حوصلہ پیدا ہو گیا (7)  جزیہ کی وصولی شروع ہو گئی (8)  اشاعتِ اسلام کا دوردراز علاقوں تک آغاز ہوا(9)   منافقین کا پردہ چاک ہو گیا(10)   غزوئہ تبوک اہلِ ایمان اور منافقین کے درمیان کسوٹی ثابت ہوا(11)   نفسیاتی جنگ کے سیاسی نتائج برآمد ہوئے(12)   ایلہ کے عیسائی حکمران یوحنا نے خود حاضر ہو کر جزیہ دینا منظور کر لیا۔اس کے علاوہ جربا اور اذرخ کے عیسائیوں نے صلح کر کے جزیہ دینا منظور کر لیا(13)   آئندہ کے لئے اسلام کی ترقی کی راہیں کھل گئیں جن سے اسلامی پرچم دور دراز علاقوں قیصر و کسریٰ کے علاقوں پر بھی لہرایا۔ 

ای پیپر دی نیشن