سیاست، عدم اعتماد اور عدم استحکام

وزیر اعظم عمران خان اب تک اپنی اننگز کامیابی سے جاری رکھے ہوئے ہیں  وہ مستقبل قریب کے اندرونی و بیرونی چیلنجز سے نمٹنے میں کامیاب ہو گئے تو پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ اپنی آئینی مدت پوری کرنے والے وزیر اعظم بن جائیں گے ۔ خدا خدا کرکے پاکستان میں جمہوریت  ٹریک پرآ رہی اور امید ہے کہ اس کے ثمرات جلد عوام کو ملنا شروع ہو جائیں گے۔ اب تک کی صورتحال کے مطابق مہنگائی، بے روزگاری، غربت اور لاقانونیت سے نالاں عوام موجودہ حکومت سے بدظن ہیں۔ عام آدمی جو ہمیشہ دال روٹی کے چکر میں پھنسارہتا ہے اسے اعداد و شمار کے گھن چکر اور لمبی لمبی تقاریر سے کوئی سروکار نہیں۔ اسے اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالنے اور بنیادی ضروریات زندگی پورا کرنے سے ہی فرصت میسر نہیں تو وہ سیاست اور اپنے بہتر مستقبل کیلئے کیونکر سوچ سکے گا۔ عام آدمی اور ارباب اختیار میں اس دوری کا فائدہ ہمیشہ کی طرح کی اپوزیشن جماعتیں اٹھا رہی ہیں۔ پی ڈی ایم کے بعد ایک مرتبہ پھر شہر اقتدار میں اپوزیشن جماعتوں کا اکٹھ ہو رہا ہے اور اب کی بار ایسا لگتا ہے کہ یہ ’’کچھ‘‘ کر گزرنے کے موڈ میں ہیں ۔ ایوانی ذرائع کا کہنا ہے  کہ اپوزیشن جماعتوں کے رہنما اب بھی ایک دوسرے پر اعتماد کرنے سے کترا رہے ہیں۔ وزیر اعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا سوچنے والے خود ایک دوسرے پر عدم اعتماد کی صورتحال سے دو چار ہیں اور یہی بات ’’بیل منڈھے چڑھنے‘‘ نہیں دیتی۔دیکھنا یہ ہے کہ ان حالات میں اپوزیشن حکومت کیخلاف تحریک عدم لا سکے گی؟  
بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین اگر واقعی عوامی فلاح و بہبود کا عزم رکھتے اور یک جان ہو کر پی ڈی ایم سے’’محنت‘‘ جاری رکھتے تو یہ اپوزیشن جماعتیں عمران خان صاحب کو کب  وزارت عظمیٰ سے کب کا فارغ کروا چکی ہوتی ہیں ۔ پہلی مرتبہ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہونے والے خان صاحب کیلئے موجودہ اپوزیشن نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں۔ اس میں کوئی دوسری رائے ہی نہیں کہ  اپوزیشن دراصل حکومت کی مخالفت کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی ۔ آپ سینیٹ کو دیکھ لیں جہاں اپوزیشن واضح اور بڑی اکثریت رکھتی ہے لیکن اسے تین بار بڑی ناکامی کا مزہ چکھنا پڑا۔ عمران خان صاحب اگرچہ ابھی تک عوام کو ڈیلیور نہیں کر سکے لیکن وہ سیاسی میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں۔ یہ وہی عمران خان ہیں جن کے بارے میں بڑے سیاسی جغادریوں کا کہنا تھا کہ ایک سال نہیں نکال سکیں گے۔حکومت اپنی آئینی مدت مکمل کرنے والی ہے اور اس کا صرف ڈیڑھ سال باقی ہے۔ اس مرتبہ اگر اپوزیشن اپنی ممکنہ اور مجوزہ تحریک عدم اعتماد میں ناکام رہی تو اگلے انتخابات میں انہیں اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑے گا۔ ایوانی ذرائع کے مطابق یہ طے ہونا باقی ہے کہ تحریک عدم اعتماد پہلے وزیراعظم کے خلاف لائی جائے یا اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف۔چند اپوزیشن رہنما سمجھتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد بالفرض ناکام بھی رہی تو عمران خان کی حکومت کمزور ہو جائے گی حالانکہ ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اگرچہ (ن) لیگ کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے ’’مفاہمتی سیاستدان‘‘ شہباز شریف کو سیاسی رابطوں کا ٹاسک دیدیاہے لیکن مریم نواز پھر بھی جارحانہ انداز اختیار کئے ہوئے ہیں۔ آصف علی زرداری نے چوہدری شجاعت سے ملاقات میں انہیں’’بڑے‘‘ عہدے کی آفر کی ہے لیکن ق لیگ نے فی الحال پیپلز پارٹی کو ’’گرین سگنل ‘‘ نہیں دیا۔ اس حوالے سے( ق) لیگ کے صدر چوہدری شجاعت نے سابق صدر زرداری کو کہا ہے کہ کوئی نیا تجربہ نہ کریں۔ 5 سال تک ہمارا معاہدہ ہے اور ہم حکومت کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے اور ویسے بھی اب شریف برادران اعتماد کے قابل نہیں رہے۔ چوہدری شجاعت کے اس جواب پر سابق صدر زرداری نے انہیں ہر ممکن ضمانت دینے کی بات بھی کی لیکن ’’دال‘‘ گلی نہیں۔ 
دوسری جانب حکومت بھی اگلے عام اور بلدیاتی انتخابات کی تیاری شروع کر چکی ہے۔ امسال ہونے والے بلدیاتی انتخابات کا براہ راست اثر 2023 میں ہونے والے عام انتخابات پر بھی ہوگا۔ حکومت نے اپوزیشن کے لانگ مارچ اور ممکنہ تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرنے کیلئے ملک بھر میں جلسے جلوس اور عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔تحریک انصاف بطور سیاسی جماعت اندرونی خلفشار سے دوچار ہے جس پر قابو نہ پایا گیا تو اسے ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔اس سلسلے میں وزیراعظم عمران خان نے بلدیاتی الیکشن کیلئے ٹکٹ میرٹ پر دینے اورپارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ منظم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہاہے ’کہ تحریک انصاف ملک کی مقبول جماعت ہے، بلدیاتی انتخابات میں پوری قوت کیساتھ میدان میں اتریں گے، عوام کے پاس پی ٹی آئی کے علاوہ کوئی بہتر آپشن نہیں ہے،اپوزیشن کے لانگ مارچ یا مہنگائی مارچ سے پریشان نہ ہوں یہ پہلے بھی ناکام ہوئے اور اب بھی ناکام ہوںگے کیونکہ عوام انہیں مسترد کر چکے ہیں‘۔
موجودہ سیاسی گرما گرمی اگر عمران خان کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے محروم نہ بھی کر سکی تو یہ اگلے عام انتخابات کی تیاری کا ’’ٹریلر‘‘ ضرور ہے۔ سیاسی جماعتیں چاہے وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن  سے وہ سیاست ضرور کریں، عدم اعتماد لائیں ،تحریک چلائیں لیکن جمہوریت کو ڈی ریل کرنے سے باز رہیں۔ ہم پہلے ہی تاریخ کے مشکل ترین معاشی حالات سے گزر رہے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ سیاست کا یہ کھیل ملک میں عدم استحکام کا باعث بن جائے۔نعمان شوق کا شعر 
جمہوریت کے بیچ پھنسی اقلیت تھا دل 
موقع جسے جدھر سے ملا وار کر دیا 

ای پیپر دی نیشن