سائیں غلام حسین قلندر کی والدہ ماجدہ 

والدہ کا نام سن کر ہر مسلمان ادب سے اپنی نگاہیں نیچی کر لیتا ہے کیونکہ ہر ذی شعور کو معلوم ہے کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے،  اسے ماں نے پالا اسے ماں نے تربیت دی اور معاشرے کی ترقی اور تنزلی کی کنجی ماؤں کے ہاتھ رہتی ہے۔ماں جو عورت کے روپ میں ہوتی ہے،  اسکا مقام دنیا کے ہر عہدے سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ تاریخ اسلام اٹھا کر دیکھیں مائیں کامل انسانوں کی پرورش کرتی رہی  ہیں اور صالح سپوتوں کو پروان چڑھاتی اور معاشرے کو سیاسی اور ثقافتی رنگوں میں سنوارتی نظر آئیں گی۔ نیک اولاد ماں با پ کی سرفرازی کا سرمایہ اور بڑھاپے میںاسکا سہارا ہوتی ہے۔  آپ ؐنے فرمایا خدا رحمت کرے ان ماں پاپ پر جہنوں نے اپنی اولاد کو تربیت دی کہ وہ ان کے ساتھ حسن سلوک کریں۔  رسول کریم کے دیوانے  سائیں غلام حسین قلندر کی والد ماجدہ عرف نان جی  نے یہ ذمہ داری بہت احسن طریقے سے نبھائی۔  ان کے بیٹے نے چالیس سال چلہ کیا اور آپ  اپنے بیٹے کا آخری دیدار نہ کر سکیں۔ جس محنت سے انھوں نے شجر لگایا اور اسکی آبیاری کی اسکا سارا علاقہ گواہ ہے۔ماں کی گود کو اولاد کا پہلا مکتب اس لئے کہا گیا ہے کہ ماں کو اولاد کی تربیت کیلئے مرکزی کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ وہ نیک سیرت اور پاکیزہ مائیں ہی تو تھیں۔ جہنوں نے اسلام کو عظیم مصلحین، علماء اور اولیاء کرام پیدا کئے۔ جن کی علمی، اصلاحی جدوجہد نے مختلف ادوار میں اسلام کو ظلمت کے اندھیروں سے نکال کر صراط مستقیم پر گامزن کیا۔ سائیں غلام حسین کی والدہ  پڑھی لکھی تونہیں تھی مگر نماز روزہ  تلاوت قرآن پاک کی پابند تھی۔وہ نہایت پاکیزہ، نیک  معاملہ فہم ،دور اندیش اور مدبر خاتون اپنی والدہ کے ہمراہ پالا ۔ پڑھایا لکھایا۔  انھوں نے خاوند کے بعد اولاد کی تربیت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔  حضرت سائیں غلام حسین قلندر کی والدہ ماجدہ کا نام فتح جان تھا۔ ان کی پیدئش کی اصل تاریخ تو معلوم نہیں۔ البتہ ایک اندازے کے مطابق آپ  1915میں پیدا ہوئیں۔  ان کی والدہ کو اللہ سبحان و تعالی نے ان گنت خوبیاں عطا فرمائیں۔  والدہ ماجدہ کو سب لوگ نا ن جی کہہ کر پکارتے تھ۔ نان جی کی والدہ  صاحبہ بہت نیک خاتون تھیں ۔ نماز روزہ کی بہت پابند تھیں جس کے اثرات نان جی پر بہت گہرے تھے۔ انکی والدہ نے آپ کر پرورش میں کوئی کمی نہ آنے دی۔1934 میںتقریبا بیس سال کی عمر میں ان کی شادی  جناب فرمان علی ہوئی ۔ جناب فرمان علی صاحب کے ہاں اللہ نے چار بیٹے عطا کئے۔ جن میں سے دو بچپن میں وصال پا گئے۔ جو دو بیٹے  ان میں سائیں غلام حسین بڑے اور نذر حسین چھوٹے بھائی تھے جوان ہوئے۔  والدہ  ہمیشہ  صبر و شکر اور اللہ تعالی کی نوازشوںکی آمین تھیں۔ آپ نے صبر کا دامن ہاتھ نہ جانے دیا۔فرمان علی رضائے الہی سے 1941میں انتقال فرما گئے۔  جب نان جی بیوہ ہوئیں تو آپ کی عمر اس وقت تقریبا چھبیس سال تھی۔انھوں نے دوسری شادی سے انکار کردیا اور اپنے بیٹوں سائیں غلام حسین اور نذر حسین کی پررورش میں دن رات ایک کر دی۔  نان جی نے اللہ تبارک و تعالی سے رجوع کیا جو ہر مشکل گھڑی میں مدد کر تا ہے آپ نے ہر چیز اللہ سبحان کے حوالے کردی ۔ نان جی جلہاری شریف سخی معظم قلندر بادشاہ ؒ کے آستانے سے بیعت تھیں۔ وہ اپنے پیر و مرشد کے آستانے پر صفائی لنگر پکاتیں اور  زائرین کی خدمت کرتیں۔  پیر و مرشد کی نظر عنایت سے  حالات بہتر ہونے لگے۔سائیں جی سرکار نے ابتدائی تعلیم نویں جماعت تک حاصل کی جبکہ ان کے چھوٹے بھائی نذر حسین نے ایف اے پاس کیا۔نان جی کی والدہ کا تذکرہ بھی بہت ضروری ہے۔ جب نان جی کے سرتاج انتقال فرما گئے تو  والدہ سرور جان آپ کے پاس آگئی اور پھر باقی ماندہ زندگی اپنی بیٹی کے ساتھ گزاری اوردونوں ماں بیٹی نے انتہائی مالی مشکلات کے باوجود محنت مزدوری کرکے حلال رزق کما کر بچوں کو پالا۔  جب ان کی والدہ سرور جان اس جہان فانی سے رخصت ہو گئیں تو یقینا نان جی کو بہت صدمہ ہوا اور بچے بھی بہت اداس ہوئے۔  ان کا اہل بیت سے اس قدر عشق تھا کہ حضور کریمؐ کا نام  آتا  آنکھوں سے آنسوں ٹپکنا شروع ہو جاتے تھے۔ یہ آنسوؤں کا تحفہ رب العزت نے انھیں خصوصی طور پر انعام کیا۔ فجر کے بعد وہ تلاوت کلام پاک میں مشغول ہو جاتیں اور دس بجے تک تسبیح اور دورد شریف  اور ذکر اذکار میں لگی رہتی تھیں۔  وہ بڑی اچھی نعت پڑھتی تھیں ۔ آواز میں اسقدر جوش تھا کہ محفل پر وجد طاری ہو جایا کرتا تھا۔   سائیں جی ان کا بہت احترام فرماتے تھے۔ سائیں جی جب چلہ گاہ میں گئے تو تین سال بعد ممتا جاگ گئی ملاقات کی طلب ہوئی۔ ادھر چلے کے باعث بیٹے سے ملاقات مشکل تھی۔ لہذا اپنے پیرو مرشد معظم شاہ  جلیاری شریف جا کر دکھڑا سنایا، اللہ تعالی سے دعا کی۔ آپ نے چلے کے دوران ہی  ملاقات کا وقت دیا اور ماں بیٹے کی ملاقات ہوئی مگر صرف دیکھنے  اور بات کرنے تک اجازت ملی۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...