اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین و وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ سیلاب متاثرہ علاقوں میں ازسرِ نو بحالی کا کام آئندہ تین سالوں میں مکمل کیا جائے گا۔ متاثرین کو گھروں کی تعمیر میں مالی معاونت کے ساتھ ساتھ انہیں زمین کے مالکانہ حقوق بھی دیں گے۔ انہوں نے آئی ایم ایف سمیت تمام عالمی اداروں پر بھی زور دیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں آنے والے تاریخی سیلاب کے متاثرین کو تحفظ دیا جائے۔ سیلاب متاثرین کے گھروں کی ازسرِنو تعمیر کے لے فنڈز کے اجراء کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پی پی پی چیئرمین نے کہا کہ 2022 کا سیلاب قیامت سے پہلے قیامت جیسا تھا، ایسے سیلاب معلوم تاریخ میں یہاں کبھی نہیں آیا۔ سیلاب کی تباہ کاریوں پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہر سات میں سے ایک شہری سیلاب کی تباہ کاریوں کا نشانہ بنا۔ پچاس لاکھ ایکڑ زمین پر کھڑی فصلیں سیلاب میں بہہ گئیں۔ ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی زراعت ہے، جسے حالیہ قدرتی آفت نے بری طرح متاثر کیا ہے۔ سندھ، پنجاب، بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کے کسانوں اور کاشتکاروں کو ان کے ذریعہ معاش کو برباد کردیا ہے۔ پاکستان میں سیلاب کے کٹھن حالات کے دوران اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی کاوشوں کے سراہتے ہوئے وزیرِ خارجہ نے کہا کہ انتونیو گوتریس نے جنرل اسمبلی کی مصروفیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان سے تعاون کیا اور ان ہی کی کاوشوں کے باعث ریسکیو اینڈ ریلیف کے مرحلے سے لے کر جنیوا میں کامیاب ڈونر کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے مِل کر ہم نے عالمی برادری کا تعاون حاصل کیا اور وہ کچھ حاصل کیا جو ورنہ ناممکن تھے۔ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ کہا جاتا تھا کہ پوری دنیا میں معاشی بحران، قدرتی آفات اور یوکرین جنگ کی وجہ سے ہمیں زیادہ امیدیں نہیں رکھنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اتحادی حکومت، محکمہ خارجہ اور اقوام متحدہ کی یہ بڑی کامیابی ہے کہ تمام تر چیلنجز کے باوجود عالمی برادری نے توقعات سے زیادہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لیکن اس کا مطلب نہیں ہے کہ ہماری مشکلات ختم ہو گئی ہیں۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ سیلاب کی وجہ سے زراعت، معیشت، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بحران ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں 47 فیصد سے زائد سکول سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں، جن میں سے کئی تعلیمی ادارے مکمل یا جزوی تباہ ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جن علاقوں میں گذشتہ کئی ماہ سے پانی جمع ہے وہاں صحت کے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ یہاں نہ صرف فوڈ سکیورٹی اور زراعت کا بحران ہے، میں متاثرین کی بھوک، غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے بھی سخت پریشان ہوں۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ملک میں ایک سیاسی اور معاشی بحران چل رہا ہے، ملک کے وزیر خزانہ اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں اور امید ہے آئی ایم ایف سے بات چیت مثبت رہے گی۔ انہوں نے زور دیا کہ وفاقی حکومت اور عالمی اداروں بشمول آئی ایم ایف کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سیلاب متاثرین کو تحفظ دلائیں تاکہ وہ اس مشکل سے نکل سکیں۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب زدہ علاقوں کے زمینی حقائق سامنے ہیں کہ کرونا وائرس کے دوران آئی ایم ایف پروگرام تھا تو صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو صحت کے شعبوں میں اخراجات سے استثنیٰ دی گئی تھی۔ انہوں نے کہا ہمیں امید ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ موجودہ مذاکرات میں بھی ریلیف اور تعمیر نو کے اخراجات میں شرائط میں استثنیٰ دی جائے گی۔ انہوں نے زور دیا کہ جن علاقوں میں سیلاب نے تباہی مچائی ہے وہاں ٹارگٹڈ سبسڈی دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ سیلاب متاثرہ علاقوں کے لیے ٹارگٹڈ ریلیف ہو، یہ ریلیف زراعت، توانائی اور کھاد کے لیے ہونی چاہیے، یہ تب ممکن ہوگا جب آئی ایم ایف کی شرائط میں نرمی ہوگی، درپیش امتحان اور مسائل کا حل اور منصوبے ہمارے پاس ہیں۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، ڈونر اداروں کے نمائندے اور دیگر بھی موجود تھے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہمیں عالمی اداروں بالخصوص عالمی بینک سے تعاون ملا، ہمارے وزیر خزانہ اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں، امید ہے آئی ایم ایف سے بات چیت مثبت رہے گی، آئی ایم ایف کی ذمہ داری ہے کہ سیلاب متاثرین کو بھی تحفظ دلائے، آئی ایم ایف کے کہنے پر قوم پر مہنگائی کا بوجھ ڈال رہے ہیں، آئی ایم ایف سے مطالبہ ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے متاثرہ قوم کے ساتھ شرائط نرم کرے، عالمی ادارے اور آئی ایم ایف سے مطالبہ ہے کہ سیلاب میں ڈوبے لوگوں کو مہنگائی میں نہ ڈبوئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ سیلاب متاثرہ علاقوں کے لیے ٹارگٹڈ ریلیف ہو، یہ ریلیف زراعت، توانائی اور کھاد کے لئے ہونی چاہئے، یہ تب ممکن ہوگا جب آئی ایم ایف کی شرائط میں نرمی ہوگی، درپیش امتحان اور مسائل کا حل اور منصوبے ہمارے پاس ہیں۔