ریاست مدینہ ایک حقیقت تھی جس کے حاکم اللہ کے رسول تھے۔ فقیرانہ زندگی گزارتے تھے لیکن ان کے عوام سکون کی نیند سوتے اور عزت کی روٹی کھاتے تھے۔ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں یمن اور حجاز اسلامی حکومت میں شامل ہو چکے تھے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم وسلم ان علاقوں میں والی مقرر کرتے ہوئے ان کے تقویٰ، علم و دانش، عقل و عمل اور فہم کا خاص طور پر خیال رکھتے تھے۔ امراء کے انتخاب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکمت عملی کا ایک اہم جزو یہ تھا کہ جو لوگ والی بننے کی درخواست کرتے، ان کی درخواست رد کر دیتے۔ افسروں کے انتخاب کے سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکمت عملی قرآن پاک کی اس آیت کی تعبیر تھی۔ ”بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے “سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں“۔(النساء: 58)حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاریخِ انسانیت کی 23سالہ قلیل ترین مدت میں جو عظیم الشان انقلاب برپا کیا وہ اپنی نوعیت ، کیفیت، جدوجہد اور نتائج کے اعتبار سے اتنا حیران کن ہے کہ اس کی نظیر تاریخِ عالم میں کہیں موجود نہیں ہے۔۔ یہ ایک فلاحی اور خادمِ خلق ریاست تھی جس کے ذمے خدمتِ انسانیت اورکفالتِ رعایا تھی۔ اس ریاست میں کوئی گداگر نہ تھا۔ اس کے سربراہ کا اعلان تھا کہ جو مقروض فوت ہوجائے اس کا قرض ریاست کے ذمے ہے اور جو وراثت چھوڑ جائے وہ اس کے وارثوں کی ہے۔ روزگار کی ضمانت اور معاشی کفالت کا اہتمام ریاست کے ذمے تھا۔ اس ریاست کا تصورِ حاکمیت دنیا کی تمام ریاستوں سے مختلف تھا۔ اس کی حاکمیت نہ عوام کی تھی، نہ سربراہِ مملکت کی،نہ کسی خاندان کی اور نہ کسی ادارے کی بلکہ اس کی حاکمیت کا براہِ راست تعلق اللہ تعالیٰ سے تھا۔ وہ اس کا حقیقی اور مستقل حاکمِ اعلیٰ تھا جو ازل سے اَبد تک ہے اور جو ہرلمحہ اپنے بندوں کا نگران اور کفیل ہے، اور جو اپنی مخلوق کا تنہا حاکم ہے، باقی سب اس کے محکوم ہیں۔ اس ریاست میں عمّال کے بارے میں صالح کی شرط لازم تھی۔ غیرصالح کردار کے لئے اس ریاست میں روٹی کپڑے اور مکان کا انتظام تو ضرور موجود تھا،لیکن اس کے لئے اعلیٰ مدارج اور اونچے مناصب کے حصول کا کوئی سوال نہ تھا۔ریاست مدینہ ایسی ریاست تھی جس میں انصاف و عدل کے تقاضوں کے مطابق مسلمان قاضی کا فیصلہ یہودی کے لیے برات اورمسلمان کے لیے گردن زنی کا تھا۔ ایک دفعہ جب محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مجرم کے لیے قانون میں رعایت مانگی گئی تو فرمایا میری بیٹی بھی ایسا جرم کرتی تو یہی سزا پاتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بذات خود عمر کے آخری ایام میں مسلمانوں کے درمیان تشریف فرما ہوئے اور فرمایا میں نے کسی کے ساتھ زیادتی کی ہو تو بدلہ لے لے۔قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درسِ مساوات نے ہی اس معاشرے کو عدل فاروقی کی منزل سے روشناس کرایا۔اسلامی ریاست میں نظام تعلیم کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت سے قبل ہی حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو معلم بنا کر مدینہ بھیج دیا تھا اور ہجرت کے بعد مسجد نبوی کو باقاعدہ درس گاہ کا درجہ حاصل ہو گیا۔ غیر مقامی طلبہ کی تدریس و رہائش کے لیے صفہ چبوترہ بنایا گیا۔ عرب میں چوںکہ لکھنے کا رواج نہیں تھا اس لیے مسجد نبوی میں ہی حضرت عبد اللہ بن سعید بن العاص اور حضرت عبادہ بن صامت کو لکھنا سکھانے پر مامور کیا گیا۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مختلف زبانیں سکھائی گئیں اور فنون جنگ کی تعلیم ہر جوان کے لیے ضروری قرار دی گئی۔ خواتین گھریلو صنعتوں کے ساتھ علاج معالجے کا انتظام بھی کرتی تھیں، حتیٰ کہ ایک صحابیہ نے مسجد نبوی ہی میں خیمہ لگا دیا تھا جہاں زخمیوں کی مرہم پٹی کی جاتی تھی۔دنیاوی علوم سیکھنے کے لیے قیدیوں کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ انھیں اپنی رہائی کے بدلے مسلمانوں کو پڑھانا ہو گا۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں احتساب کا کوئی مستقل محکمہ قائم نہیں تھا مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فرض خود انجام دیا کرتے تھے۔ تجارتی معاملات کی بھی نگرانی فرماتے۔ عرب میں تجارتی معاملات کی حالت نہایت قابل اصلاح تھی۔ مدینہ منورہ آنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اصلاحات جاری کیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں سے اصلاحات پر عمل کراتے، جو باز نہ آتے انہیں سزائیں دیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں کوئی باقاعدہ جیل خانہ نہیں تھا اس لیے صرف اتنا خیال کیا جاتا تھا کہ مجرم کو کچھ مدت کے لیے لوگوں سے ملنے جلنے اور معاشرتی تعلقات قائم نہ رکھنے دیے جائیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں دیکھا کہ لوگ تخمیناً غلہ خریدتے تھے۔ ان کو اس بات پر سزا دی جاتی تھی کہ اپنے گھروں میں منتقل کرنے سے پہلے اس کو خود ہی وہاں بیچ ڈالیں جہاں اس کو خریدا تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمال پر کڑی نگاہ رکھتے، کسی عامل کی شکایت پہنچتی تو فوراً تحقیقات کراتے کیوںکہ حکمران کی حیثیت ایک داعی کی ہے۔ اگر سلطنت عدل کی جگہ ظلم و تشدد قبول کر لے تو سلطنت کا نظام درہم برہم ہو تا ہے۔ریاست مدینہ کے بعد پاکستان وہ پہلی ریاست ہے جو اسلامی نظریے کی بنیا د پر معرض وجود میں آئی۔قیام پاکستان کی تحریک کے دوران جب قائد اعظم سے پاکستان کی قانون سازی کے حوالے سے پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا کہ پاکستان کی قانون سازی آج سے چودہ سو سال قبل ہو چکی ہے۔ قائد کی اس بات کا مطلب یہ تھا کہ مسلمانوں کے لیے وجود میں آنے والی یہ نظریاتی ریاست اب ریاست مدینہ کی عملی تصویر ہوگی۔