ماضی سے سبق سیکھیں

1979ءکے آخر میں سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کرکے پورے ملک پر قبضہ کرلیا۔سوویت یونین کے افغانستان پر حملے سے قبل جب پشاور میں حکومت پاکستان نے گلبدین حکمت یار اور احمد شاہ مسعود کو ہیڈ کوارٹر بناکر افغانستان کے خلاف بولنے کی اجازت دی تو سبھی خاموش رہے لیکن ایئرمارشل اصغر خان نے کہا کہ یہ طرز عمل درست نہیں۔ کل اگر افغانستان میں کوئی پاکستانی بیٹھ کر ملک مخالف باتیں کرےگا تو ہم سے برداشت نہیں ہونگی۔ واضح رہے کہ امریکہ نے ویتنام میں جنگ چھیڑی تھی تو سوویت یونین کی مداخلت کے باعث اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جسے امریکہ نے یاد رکھا اور موقع کی تلاش میں رہا کہ کہاں اور کیسے ویتنام کی شکست کا بدلہ لینا ہے۔ سوویت یونین اور امریکہ دونوں سپر پاورز تھیں اور یہ باہم دست و گریباں رہتی تھیں لیکن ان دونوں کے دست و گریباں رہنے سے مسلمان ممالک قدرے امان میں تھے اور سپرپاورز کی توجہ باہمی کشمکش کی جانب ہی رہنے سے امریکہ کی توسیع پسندی قدرے کم تھی۔ جب سوویت یونین نے افغانستان پر جارحیت کی تو امریکہ نے اسے غنیمت جانا اور کابل پر سوویت پرچم لہرائے جانے تک امریکہ نے پاکستان میں یہ تاثر عام کردیا کہ سوویت یونین کی اگلی منزل اسلام آباد ہے اور وہ گرم پانیوں تک رسائی کےلئے ہر صورت آگے بڑھے گا اور اسکا اصل ہدف پاکستان ہی ہے۔امریکی ڈالرز کی برسات‘ اسلحہ‘ تربیت اور پروپیگنڈا اس قدر مو¿ثر ثابت ہوا کہ سوائے ولی خان اور ایئرمارشل اصغر خان کے تمام سیاسی‘ مذہبی لیڈرز‘ حکمران اور عسکری قیادت امریکی جھانسے میں آگئی اور انہوں نے بھی اس بات کو تسلیم کرنے کی غلطی کرلی کہ یہ جنگ اصل میں پاکستان کی جنگ ہے لیکن اس تمام امریکی کوششوں کے پیچھے امریکہ سووویت یونین سے ویتنام کی شکست کا بدلہ لینا چاہتا تھا۔
ایئرمارشل اصغر خان مرحوم نے برملا کہا کہ سوویت یونین کا تعاقب نہ کیا جائے کیونکہ وہ واپس جارہا ہے اور اگر ہم نے کوئی غلطی کی تو ہماری آئندہ 3نسلیں اس کے بدترین اثرات کا شکار رہیں گی لیکن ان کی بات نہیں مانی گئی اور انہیں ”روس کا ایجنٹ“ قرار دیا گیا۔ کابل کی فتح کے بعد پاکستان نے امریکی اشاروں پر نہ ختم ہونیوالی غلطی کا آغاز کیا اور اس سے پہلے کہ سوویت فوجیں پاکستان کی جانب پیشقدمی کرتیں‘ پاکستان نے افغانستان میں جاکر انکا تعاقب کیا اور امریکی فنڈنگ اور امداد کی بنیاد پر روس کو بدترین شکست سے دوچار کیا حالانکہ سوویت یونین کے پاس سینکڑوں ایٹم بم تھے لیکن وہ معاشی طور پر کمزور ہونے کے باعث نہ صرف بدترین شکست سے دوچار ہوا بلکہ اپنی سالمیت برقرار نہ رکھ سکا اور ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا ۔ اس طرح ایک سپر پاور کا دنیا سے خاتمہ ہوا۔ہم نے امریکی مفادات کی جنگ میں 1979ءسے حصہ لیا لیکن اس وقت امریکی ڈالرز کی چمک کے باعث اسے پاکستان کے مفاد کی جنگ قرار دیا گیا۔سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد افغان عوام نے ہجرت کی اور ایران و پاکستان کا رخ کیا۔ ایران نے انہیں بارڈر کے ساتھ کیمپ بناکر محدود علاقے تک رہائشی سہولتیں دیں جبکہ پاکستان نے ملک بھر میں انہیں کھلی رسائی دی جس کے اثرات آج سب کے سامنے ہیں۔
جیسے ہی سوویت یونین کی سپرپاور حیثیت ختم ہوئی تو جن مجاہدین کو دنیا بھر سے امریکہ اس خطے میں لایا تھا انہیں امریکہ نے پہلے طالبان‘ پھر القاعدہ اور اب دہشت گرد قرار دیا اور ان کیلئے زمین تنگ کردی ۔ دوسری طرف امریکہ نے افغانستان پر مکمل قبضہ جمالیا اور پاکستان کو بطور آلہ کار استعمال کیا جس سے پاکستان کو کم و بیش 80زہزار سے زائد سول و عسکری شہادتوں کے ساتھ ساتھ سینکڑوں ارب ڈالرز کا معاشی نقصان ہوا اور ساتھ ساتھ پاکستان میں اسلحہ‘ منشیات اور دہشت گردی کی ایسی لہر آئی کہ جس سے اب تک نکلنا مشکل نظر آتا ہے۔ عالمی طور پر امریکہ کے واحد سپرپاور بن جانے کے بعد تو نقشہ ہی بدل گیا اور امریکہ نے مسلم ممالک کو ایک ایک کرکے اپنے نشانے پر رکھ لیا جس کی وجہ سے آج عراق‘ شام‘ لیبیا‘ افغانستان سمیت کئی ممالک کی حالت قابل رحم ہے۔امریکہ اب مزید دیگر مسلم ممالک پر قبضے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔
جو لوگ جنرل مشرف پر امریکی جنگ میں حصہ لینے کا الزام لگاتے ہیںدراصل وہی لوگ ہیں جنہوں نے 1979ءمیں امریکی جنگ میں نہ صرف بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بلکہ اپنا پورا مفاد حاصل کیا لیکن اب وہ یہ بات تسلیم کررہے ہیں کہ حقیقت میں ایئرمارشل اصغر خان مرحوم اور ولی خان مرحوم کا موقف بالکل درست تھا اور پاکستان نے سوویت یونین کا تعاقب کرکے بدترین غلطی کی۔پرانی باتیں بار بار اسی لئے دوہرانے پر مجبور ہوں کہ ہم ان سے سبق سیکھیں اور اپنے مستقبل کے لئے مناسب ترین فیصلے کریں اور ایک بار پھر کسی ”غلطی“ کا شکار نہ ہوجائیں۔
ہمیں دوبارہ 1979ءوالی غلطی نہیں کرنی کیونکہ پہلی غلطی کے اثرات سے ہم ابھی تک نہیں نکل پائے اور اگر خدانخواستہ دوسری غلطی کرلی گئی تو پھر ملک کا اﷲ ہی حافظ ہوگا۔ اب پاکستان کو صرف اپنی سرحدی حدود کے دفاع اور تحفظ تک محدود رہ کر معاشی ترقی کی منازل طے کرنے کی جانب توجہ دینی ہوگی اور خطے یا دنیا کا ٹھیکہ دار بننے کی ضرورت نہیں۔ افغانستان کو اسکی عوام کی صوابدید پر چھوڑا جائے کہ وہ جسے چاہیں اقتدار دیں اور ہمیں اب دوسرے ممالک میں مداخلت کی پالیسی چھوڑنی ہوگی۔ہمیں فوری طور پر افغانستان کے ساتھ بارڈر مکمل طور پر سیل کرنا ہوں گے اور اگر خدانخواستہ افغانستان میں حالات ایک بار پھر عوام کی ہجرت کی جانب جاتے ہیں تو ہمیں مہاجرین کو بارڈر کے ساتھ کیمپوں کے مخصوص علاقے تک محدود رکھنا ہوگا نہ کہ ایک بار پھر پورا ملک انکے حوالے کردیا جائے۔

ای پیپر دی نیشن