کیا انتخابات معاشی مسائل کا واحد حل ہیں؟

Feb 09, 2023

ڈاکٹر شبیر احمد خان


پاکستان میں اپوزیشن ہمیشہ معاشی مسائل کے حل کے لیے ایک ہی مجرد ن±سخہ، نئے انتخابات تجویز کرتی ہے۔ نئے انتخابات کا مطالبہ اتنے زور شور سے کیا جاتا ہے کہ یقین آنے لگتا ہے کہ اگر انتخابات نہ ہوئے تو ملک کا دیوالیہ نکل جائے گا۔ انتخابات اور معاشی ترقی کا شاید اتنا تعلق بھی نہ ہو جتنا تعلق “بےگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ” کا ہوتا ہے۔ کیا یہ افسانہ ہے کہ حقیقت؟ یہ اتنا مشکل سوال بھی نہیں ہے کہ جس کا جواب تلاش نہ کیا جاسکے۔یہ چونکہ اعدادوشمار کا معاملہ ہے اس لئے اس کا تجزیہ سائنسی طریقہ کار کو بروئے کار لاتے ہوئے کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہم تاریخی مشابہت کی تھیوری کو لاگو کرکے دیکھیں تو فوراً اندازہ ہوجائے گا اس دعوی میں کتنی صداقت ہے؟ 
پاکستان میں معاشی ترقی اور انتخابات کے درمیان تعلق کو جانچنے کے لیے، انتخابات سے پہلے اور بعد کے معاشی ترقی کے اشاریوں کو جمع کرکے ان کا موازنہ کرلیں، تو اندازہ ہوجائے گا کہ فلاں انتخابات کے بعد ملک نے معاشی ترقی کی کتنی منازل طے کیں؟ انتخابات کو ایک آزاد تغیر رکھتے ہوئے ، معاشی ترقی کو ایک انحصاری تغیر کے طور پر جانچنے کی ضرورت ہے، اور اگر کئی دیگر تغیرات کی مداخلت کے بغیر اعدادوشمار اس حقیقت کو واضح کردیں کہ معاشی ترقی اور انتخابات کا چولی دامن کا ساتھ ہے تو پھر اپوزیشن کے اس نئے الیکشن کے مطالبہ میں حقیقت ہے۔ پھر اس مطالبہ کی حمایت کے سوا کوئی دوسرا چارہ نہیں۔
پاکستان میں انتخابی تاریخ کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ تینوں ادوار فوجی حکومتوں کے بعد کے ادوار ہیں۔ پاکستان میں پہلا عام انتخاب گیارہ سالہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے اقتدار کے اختتام اور جنرل یحییٰ خان کے شروع کے دور میں ہوا۔ دسمبر 1970 ءکے پہلے عام انتخابات کے نتیجہ میں م±لک دولخت ہوا۔ مارچ 1977 ءمیں دوسرے عام انتخابات کے بعد اپوزیشن نے دھاندلی کے خلاف ملک گیر احتجاجی تحریک شروع کی جس کا اختتام ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت سے معزولی اور ایک نئے مارشل لاءکے نفاذ پر ہوا۔ آئندہ گیارہ سال کے لئے جنرل محمد ضیاءالحق ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہے۔ فروری 1985 ءمیں تیسرے عام انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر کرائے گئے ۔ نومبر 1988 ءسے لے کر 12 اکتوبر 1999 ءکے دن جنرل پرویز مشرف کے چوتھے مارشل تک ملک میں کل ملاکر چار الیکشنز ہوئے، مگر ایک سول حکومت بھی اپنی آئینی مدت پوری نہ کرسکی۔ دو حکومتیں پاکستان پیپلز پارٹی کی محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں قائم ہوئیں اور دو حکومتیں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما میاں محمد نواز شریف کی قیادت میں قائم ہوئیں۔ صدر مملکت نے آئین کی آٹھویں ترمیم کے آرٹیکل (2B) 58 کو بروئے کار لاتے ہوئے تمام حکومتوں کو برطرف کیا اور اسمبلیوں کو تحلیل کیا۔ دلچسپ بات یہ کہ حکومت کی معزولی کے لئے دئے گئے دیگر اسباب کے علاوہ ملک میں جاری معاشی بدحالی کو بھی ذمہ دار قرار دیا گیا۔ جنرل محمد ضیاالحق کے گیارہ سالہ دور اقتدار میں جو معاشی ترقی ہوئی، سول حکومتوں کے گیارہ سالہ دور میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں تھا۔ 
اسی طرح عام انتخابات کا تیسرا دور جنرل پرویز مشرف کے بعد کا دور ہے جس میں تین عام انتخابات ہوئے ۔ دو انتخابات جنرل پرویز مشرف کے ہوتے ہوئے بھی ہوئے ، اکتوبر 2002 ءمیں جب پاکستان مسلم لیگ (ق) اقتدار میں آئی، اور فروری 2008 ءکے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی۔ پرویز مشرف کے دور میں ہوئی معاشی ترقی کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کی طرف سے دی گئی بارہ بلین ڈالرز کی گرانٹ کی مرہون منت قرار دیا جاسکتا ہے نہ کہ کسی انتخاب کے نتیجہ میں قائم ہونے والی حکومت کے کھاتہ میں ڈالا جائے۔ 2008 ءکے انتخابات کے بعد قائم ہونے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت عالمی سطح پر تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی بنا پر شدید معاشی بحران کا شکار رہی۔ خام تیل کی قیمت عالمی منڈی میں 140 ڈالر فی بیرل کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی تھی۔ جس کی وجہ سے ملک کو توانائی کی شدید قلت کی وجہ سے تاریخ کی بدترین لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ تاریخ میں پہلی بار انتخابات کے بعد قائم ہونے والی تمام پارلیمان نے اپنی اپنی آئینی مدتیں پوری کیں، مگر ایک بھی وزیراعظم اور اسکی حکومت اپنی آئینی مدت پوری نہ کرسکی۔ مئی 2013 ءکے انتخابات کے بعد ما سوائے ایک دو سال کی محدود مدت کے جب میاں نوازشریف کی قیادت میں قائم ہونے والی مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے معاشی ترقی کی طرف قدم پہلا بڑھایا ۔
اگر جولائی 2018 ءکے انتخابات سے پہلے اور بعد کی معاشی حالت کا موازنہ کریں تو یہ نتیجہ واضح نظر آتا ہے کہ پاکستان کی معاشی و اقتصادی ترقی شدید متاثر ہوئی۔ معاشی ترقی کے اعداد وشمار یا اشاریے جمع کریں جن میں ترقی کی شرح نمو، تجارتی خسارہ، فی کس آمدنی، افراط زر، روزگار کی فراہمی، اندرونی و بیرونی قرضے، عام آدمی کی قوت خرید، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی شامل ہیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ 2018 ءکے انتخابات کے بعد ملک شدید مالی بحران کا شکار ہوا، ملک پر بیرونی قرضوں کا بوجھ کئی گنا بڑھ گیا۔ پاکستان کو اپنی تاریخ کے بلند ترین قرضے اسی دور میں لینا پڑے، توانائی اور گیس پر گردشی قرضہ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ ملک کو بدترین تجارتی اور کرنٹ اکاو¿نٹ خسارہ کا بھی سامنا کرناپڑا۔ اسی طرح ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا اور آج ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ آئے روز ملک کے دیوالیہ ہونے کی خبریں گردش کرنے لگی ہیں۔ آئی۔ ایم۔ ایف۔ گویا پاکستان کی گردن پر سوار ہے۔ پاکستان کے پاس آئی۔ ایم۔ ایف۔ کی تمام شرائط پوری کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا ورنہ ملک دیوالیہ ہوجائے گا۔
درج بالا تجزیہ پیش کرنے کا بنیادی مقصد اس مفروضہ کو غلط ثابت کرنا ہے کہ ملک کی معاشی ترقی کا انحصار یا دارومدار نئےعام انتخابات پر ہے۔ اسی طرح معاشی ابتری یا اقتصادی بدحالی کو بھینئے عام انتخابات کا شاخسانہ قرار دینا دانش مندی نہیں۔ مثال کے طور پر سن 2018 ءکے عام انتخابات کے بعد کون کہہ سکتا تھا کہ پوری دنیا انتہائی تیزی کے ساتھ پھیلنے والی کووڈ19 جیسی متعدی وبا ءکا شکار ہوجائے گی ۔ اس بیماری کی وجہ سے پوری دنیا کو بدترین کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑا۔ کاروبار زندگی معطل ہوکر رہ گیا تھا۔ پاکستان کے حالیہ سیلاب نے کس قدر معاشی تباہی پھیلائی، اس کا کون اندازہ کرسکتا تھا؟ ملک کی اقتصادی و معاشی ترقی قومی، علاقائی، اور عالمی معاشی، سیاسی، اور معاشرتی تبدیلیوں سے ج±ڑی ہوتی ہے۔ روس اور یوکرین کے مابین جنگ نے عالمی معاشی ترقی کا پہیہ ایک بار پھر روک دیا ہے۔ عالمی اقتصادی نظام، عالمی سیاسی نظام کے برعکس زیادہ نظم و ضبط کے ساتھ چلتا ہے۔ پاکستان میں اقتصادی و معاشی ترقی کا انتخابات کے علاوہ دیگر عوامل کے ساتھ زیادہ گہرا تعلق ہے۔ اگر یقین نہ آئے تو کسی بھی معاشی ترقی سے متعلق ذرائع جن میں اکنامک سروے آف پاکستان اور سٹیٹ بنک سالانہ رپورٹ شامل ہیں کا مطالعہ کرکے دیکھ لیں۔ حیرت کی بات ہے کہ آج بھی تین فوجی حکومتوں کے ادوار میں معاشی ترقی کے اہداف انتخابات کے نتیجہ میں قائم ہونے والی سول جمہوری حکومتوں سے کہیں درجہ بہتر رہے ہیں۔ 
٭....٭....٭

مزیدخبریں